غازی یونیورسٹی سے بے دخل آٹھ بلوچ طالبعلموں کو بحال کر دیا گیا

ڈیرہ غازی خان (انتخاب نیوز) غازی یونیورسٹی سے بے دخل تمام آٹھ بلوچ طالبعلموں کو بحال کر دیا گیا ہے۔ طلباءگزشتہ کئی روز سے انتظامیہ کے فیصلے کیخلاف سراپا احتجاج تھے۔ مذکورہ طلباءکو گذشتہ مہینے کے اواخر اس وقت معطل کیا گیا جب انہوں نے انتظامیہ نے ان کے اسٹڈی سرکل میں خلل ڈالا اور ان کے موبائل چھینے گئے۔ طلباءکا الزام ہے کہ انتظامیہ کیجانب سے نہ صرف ان کے سرکل کو سبوتاژ کیا گیا بلکہ ان کے موبائل چھین کر طلباءو طالبات کی تصاویر لی گئیں اور انہیں ہراساں کیا گیا۔ مذکورہ طلباءکے حق میں بات کرنے پر پروفیسر رفیق قیصرانی بھی نوکری سے فارغ کردیے گئے جو غازی یونیورسٹی میں پروفیسر تھے۔ بساک کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ غازی یونیورسٹی کی جانب سے ایک اسٹڈی سرکل کی پاداش میں تنظیم کے آٹھ ممبران کو ڈسپلن کی خلاف ورزی کو جواز بنا کر یونیورسٹی سے بے دخل کر دیا گیا تھا جس کیخلاف بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی جانب سے بھرپور مزاحمت کی گئی اور آج اس آمرانہ فیصلے خلاف تنظیم کی جانب سے بھرپور مزاحمت کے نتیجے میں تمام طالبعلموں کو بحال کردیا گیا۔ تنظیم کا مزید کہنا ہے کہ بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی شعوری جدوجہد جاری رہے گی اور غازی یونیورسٹی سمیت ڈیرہ غازیخان کے دیگر تعلیمی اداروں میں شعوری سرگرمیوں کے فروغ کے ساتھ ساتھ طلباءکے حقوق کی جنگ جاری رکھے گی۔ واضح رہے اس سے قبل بھی اسلام آباد، لاہور اور پنجاب کے دیگر شہروں میں زیر تعلیم بلوچ طلباءکی پروفائلنگ و ہراسانی کے کیسز سامنے آئے ہیں جن کیخلاف بلوچ طلباءکیجانب سے بڑے پیمانے پر احتجاج کیا گیا۔ اسی طرح نمل یونیورسٹی اسلام آباد کے طالب علم بیبگر بلوچ کو 27 اپریل کو پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا جس کی ویڈیو وائرل ہوگئی بعدازاں سی ٹی ڈی کے الزامات باوجود انہیں رہا کردیا گیا۔ بیبگر امداد کے جبری گمشدگی کیخلاف بھی بلوچ طلباءمسلسل یونیورسٹی کے سامنے احتجاج پر رہیں۔ بعدازاں بیبگر امداد کے رہائی پر احتجاج اختتام پذیر ہوا تاہم بلوچ طلباءکے خدشات تاحال قائم ہیں اور وہ طلباءکی پروفائلنگ و ہراسانی کے بندش کا مطالبہ کررہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں