سی پیک سے آگے، تعلیمی راہداری
تحریر: عنایت الرحمن
پاکستان اور چین نے تعلیم کے شعبے میں باضابطہ تعاون 1960 میں اس وقت شروع کیا جب دونوں ممالک نے ثقافتی اور تعلیمی تعاون کا پہلا معاہدہ کیا۔ مگر کئی دہائیوں کے باوجود یہ تعلق اپنی پوری بلندی تک نہیں پہنچ سکا۔ اس کی بڑی وجہ دونوں ممالک کے نظام تعلیم میں نمایاں فرق ہے، جس نے روابط کو آگے بڑھنے سے روکا۔ پاکستان اور چین کی آزادی کے وقت حالات تقریباً یکساں تھے۔ پاکستان کی شرح خواندگی 16.3 فیصد اور چین کی 20 فیصد تھی۔ تاہم وقت کے ساتھ چین نے تعلیم کو قومی ترقی کا ستون بنایا جبکہ پاکستان دیگر ترجیحات میں الجھتا رہا۔
آج چین کی تعلیم پر سرمایہ کاری 812 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے جو اس کے جی ڈی پی کا تقریباً 4.22 فیصد ہے۔ اس بھاری سرمایہ کاری کا نتیجہ یہ نکلا کہ چین نے 9 سالہ لازمی تعلیم میں تقریباً سو فیصد انرولمنٹ حاصل کر لی، جبکہ پاکستان اب بھی عالمی سطح پر اسکول سے باہر بچوں کی دوسری بڑی تعداد رکھتا ہے۔ چین آج دنیا کے 200 سے زائد بہترین ٹیکنالوجی، انجنیئرنگ، آئی ٹی اور طب کے اداروں کی میزبانی کر رہا ہے۔ بیجنگ یونیورسٹی، چنگھوا یونیورسٹی، فودان یونیورسٹی، ژی جیانگ یونیورسٹی اور شانگھائی جیاٹونگ یونیورسٹی عالمی رینکنگز میں مسلسل ٹاپ 50–100 میں شامل رہتی ہیں۔
چین سالانہ 12 ہزار سے زائد پاکستانی طلبہ کو مختلف نوعیت کی اسکالرشپس فراہم کرتا ہے۔ چین کی طرف سے دی جانے والی CSC اسکالرشپس، سی پیک اسکالرشپس، علاقائی تعاون کے تعلیمی پروگرام، زرعی تحقیق، انجنیئرنگ، مصنوعی ذہانت، روبوٹکس، ماحولیات، میڈیکل سائنسز اور ووکیشنل ٹریننگ کے پروگرام پاکستانی نوجوانوں کے لیے ترقی کا نیا باب کھول رہے ہیں۔ چین کے تعلیمی اداروں میں نہ صرف فیس کم ہے بلکہ ہاسٹل، طبی سہولیات اور تحقیق کے مواقع بھی دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں زیادہ بہتر اور سستے ہیں۔
چین میں قائم جدید ترین ٹیکنالوجی پارکس، اسمارٹ لیبز، انکیوبیشن سینٹرز، مصنوعی ذہانت کے تحقیقی مراکز، اور زرعی جدت کے تجربہ گاہیں پاکستان کے طلبہ کو جدید ترین علم فراہم کرتی ہیں۔ چین کی یہ سرمایہ کاری صرف تعلیم تک محدود نہیں بلکہ وہ اعصابی، حیاتیاتی، صنعتی اور خلائی تحقیق میں بھی اپنی جگہ بنا چکا ہے۔ آج دنیا میں سب سے زیادہ انجنیئر اور سائنسدان چین میں تیار ہوتے ہیں—سالانہ تقریباً 45 لاکھ گریجویٹس سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں سے نکل کر عالمی معیشت کا حصہ بنتے ہیں۔
پاکستان کے لیے ان مواقع کی اہمیت دوچند ہے۔ پاکستان کا تعلیمی بجٹ اب بھی 5 ارب ڈالر سے کم ہے اور جی ڈی پی کا صرف 1.5 فیصد خرچ ہوتا ہے۔ اس کمزور سرمایہ کاری کے نتیجے میں پاکستان میں اعلیٰ تعلیم بدترین حالت کا شکار ہے۔ جامعات تحقیق میں پیچھے، ٹیکنالوجی سے غیر متعلق، اور ووکیشنل تربیت فرسودہ نظام کے مطابق چل رہی ہے۔ اس کے برعکس چین نے جدید اسکل بیسڈ تعلیمی نظام اختیار کر کے نوجوانوں کو نہ صرف تعلیم بلکہ مہارت، صلاحیت اور روزگار کی ضمانت فراہم کی۔
پاکستان اگر چین کے تجربات سے فائدہ اٹھائے تو وہ اپنے تعلیمی ڈھانچے کو مکمل طور پر جدید بنیادوں پر استوار کر سکتا ہے۔ چین کی طرز پر نیا ووکیشنل سسٹم، جدید ٹیکنیکل تربیت، کسانوں کے لیے اسمارٹ ایگریکلچر پروگرام، آئی ٹی ہبز، اور جدید سائنسی تحقیقی مراکز پاکستان کی معاشی حالت بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پاکستان میں اگر اسکولوں اور کالجوں میں چینی زبان کی تدریس کو عام کیا جائے تو پاکستانی نوجوانوں کے لیے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے 150 ممالک میں روزگار کے دروازے کھل سکتے ہیں۔
چینی مثال یہ بھی بتاتی ہے کہ کسی قوم کی معاشی اور سیاسی ترقی میں خواتین کی تعلیم بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ چین نے ریاستی پالیسی کے ذریعے خواتین کی تعلیم کے رکاوٹوں کو ہٹایا اور انہیں قومی ترقی کا فعال حصہ بنایا۔ پاکستان بھی اگر ایسا کرے تو تعلیم کا فائدہ معاشرے کے ہر طبقے تک پہنچ سکتا ہے۔
چین کا میرٹ پر مبنی اور اپٹیٹیوڈ بیسڈ تعلیمی ماڈل پاکستان کے لیے خاص طور پر اہم ہے۔ چین میں ہر طالب علم کو اس کے رجحان کے مطابق شعبہ منتخب کروایا جاتا ہے جس سے نہ صرف انفرادی ترقی ہوتی ہے بلکہ ملک کی مجموعی افرادی قوت بھی موثر بنتی ہے۔
پاک چین تعلیم میں تعاون نہ صرف جدید افرادی قوت تیار کرے گا بلکہ دونوں ممالک کے عوام کو بھی مزید قریب لائے گا۔ جو تعلق صرف معیشت یا سفارت تک محدود تھا، وہ نسلوں تک پھیلنے والی دوستی میں تبدیل ہو جائے گا۔ پاکستان کے لیے وقت کا سب سے بڑا تقاضا یہی ہے کہ وہ تعلیم کو ریاستی ترجیح بنائے، سرمایہ کاری بڑھائے، اصلاحات متعارف کرائے اور چین کے ساتھ تعلیمی بندھن کو مضبوط کرے، کیونکہ مستقبل انہی ممالک کا ہے جو علم اور تحقیق میں دنیا سے آگے ہوں گے۔——**


