تبلیغی جماعت کامیڈیا ٹرائل

اداریہ
ملک کے مختلف علاقوں میں تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں افراد کو کرونا وائرس کے شبہ میں قرنطینہ کر دیا گیا ہے جبکہ لاہور کے نواحی قصبہ رائے ونڈ سٹی کو سیل اور تبلیغی اجتماع گاہ کو مکمل لاک ڈاؤن کر دیا گیا ہے۔یہ شہر تبلیغی جماعت کا عالمی مرکز ہے یہاں مختلف علاقوں میں چھوٹی چھوٹی جماعتوں کی شکل میں بھیجے والے 2200افراد موجود ہیں،ان میں سے 27افراد کا ٹیسٹ مثبت آیا ہے جنہیں کالا شاہ کاکو اور قصور کے قرنطینہ مراکز میں منتقل کر دیا ہے۔حیدرآباد میں بھی کورونا کے کیسز سامنے کے بعد مرکز کو سیل کردیا گیا ہے۔سب سے پہلے اسلام آباد کے علاقے بھارا کہو میں تبلیغی جماعت کے ایک گروپ کے 6افرادمیں کورونا وائرس کا ٹیسٹ مثبت آنے پر اس علاقے کو سیل کیا گیا تھا۔ جیکب آباد میں بھی تبلیغی جماعت کے 150افراد کو قرنطینہ کر دیا گیا ہے۔حیدرآباد میں 128میں سے 94افراد ایسے ہیں جو تبلیغی اجتماع سے آئے تھے اب بھی 200افراد کی ٹیسٹ رپورٹ کا انتظار ہے۔بعض مساجد کو بھی قرنطینہ کا درجہ دے دیا گیا ہے جہاں تبلیغی مثبت رپورٹ والے مقیم تھے۔ بلوچستان میں 180 افراد میں وائرس کی اطلاع ملنے پر چار کوچز کے ذریعے انہیں اپنے آبائی علاقوں میں بھیج دیا گیا ہے۔تبلیغی جماعت کے افراد کو بڑے پیمانے پر قرنطینہ کئے جانے پر جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے الزام عائد کیا ہے کہ حکومت ایک پالیسی کے تحت تبلیغی جماعت کا میڈیا ٹرائل کر رہی ہے۔ اسے بند ہونا چاہیے۔پشتونخوامیپ کے چیئرمین محمود خان اچکزئی نے کورونا وائرس کے باعث درپیش صورت حال ویڈیو پیغام جاری کیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے اس وقت تمام انسانیت بہت بڑی بلا کے ساتھ مقابلے میں ہے چین سے نمودار ہونے والی بیماری دنیا کے ایک سو ننانوے ملکوں تک پھیل چکی ہے چین کے بہادر عوام اور ڈاکٹروں نے 3292 بچوں کی قربانی دے کر کسی حد تک اس بلا کو پیچھے دھکیل دیا ہے اس بیماری نے امریکا، اٹلی، اسپین اور فرانس جیسے ترقی یافتہ ممالک کا برا حال کیا ہے ان ممالک میں اچھے اچھے اسپتال اور لوگوں کی خدمت کے بہت سارے وسائل ہیں۔ڈاکٹر کہتے ہیں یہ بیماری بھیڑ بھاڑ اور ایسے اجتماعات میں زیادہ پھیلتی ہے جہاں انسان ایک دوسرے سے قریبی فاصلے پر ہوں چنانچہ ہمیں بھی ایک قوم کی حیثیت سے اس جنگ میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔پابندیوں کے باعث بہت سارے غریب لوگ بیروزگار ہو جائیں گے ایسے وقت میں آسودہ لوگوں کو آگے بڑھ کر ایسا نظام بنانا ہوگا کہ نانِ شبینہ کو محتاج ہونے والے ہمارے غریب لوگ ہماری بے احتیاطی سے مزید مشکلات کا شکار نہ ہوں۔کورونا نے پنجے گاڑ دیئے تو لوگ خزاں رسیدہ پتوں کی طرح موت کے منہ میں چلے جائیں گے۔ ہمسایہ ملک بھارت میں بھی دارالحکومت نئی دہلی میں نظام الدین ایریا کے تبلیغی مرکزمیں 200 افراد میں کورونا سے متأثرہ کی اطلاع ملنے کے بعد تبلیغی مرکز کو سیل کر دیا ہے۔واضح رہے دہلی حکومت نے لاک ڈاؤن کے نفاذ کے بعد تبلیغی مرکز میں سماجی دوری کی پابندی نہیں لگائی تھی لیکن قواعد کے برخلاف 13سے15مارچ تک اجتماع منعقد کیا جس میں 2ہزار افراد شریک ہوئے۔دہلی کے وزیر صحت کا کہنا ہے یہاں موجود 24افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے اور7افراد کورونا وائرس سے جاں بحق ہو چکے ہیں۔ جبکہ تبلیغی جماعت کے منتظمین نے وائرس سے متأثرہ افراد کی موجودگی کی اطلاع کو افواہ قرار دیا ہے۔مولانا فضل الرحمٰن یا تبلیغی جماعت لاکھ تردیدی بیانات جاری کریں زمینی حقائق کو جھٹلانا ممکن نہیں۔آج بچہ بچہ جانتا ہے کہ دنیا بہت بڑی مشکل میں مبتلا ہے۔ایسے وقت میں جب پوری دنیا کورونا وائرس کی لپیٹ میں ہے متأثرین کی تعداد8 لاکھ 50 ہزار اور ہلاکتیں 42ہزار سے تجاوز کر چکی ہوں پاکستان کے ہر علاقے سے پریشان کن اطلاعات مل رہی ہیں چاروں صوبے لاک ڈاؤن کے نفاذ پر مجبور ہیں مذہبی سیاست کسی لحاظ سے مناسب نہیں۔محمود خان اچکزئی نے بجا طور پر درست کہا ہے:”اگر کورونا نے ملک میں اپنے پنجے گاڑ دیئے تو لوگ خزاں رسیدہ پتوں کی طرح موت کے منہ میں چلے جائیں گے“۔جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی ترجمان حافظ حسین احمد نے مولانا فضل الرحمٰن کی ٹیلی فونک گفتگو کہہ کر جو کچھ میڈیا سے شیئر کیا ہے اسے جھٹلانا آسان نہیں لیکن باشعور حلقوں میں اس مؤقف کو ناپسندیدگی سے دیکھا گیا ہے۔پاکستان کو کورونا وائرس جیسی وبا کا شکار بنانے میں ایرانی زائرین اور تبلیغی جماعت کی جماعتوں کا بڑا اور بنیادی کردار ہے۔آج بھی 300سے زائد زائرین ایران میں پھنسے ہوئے ہیں۔ایران اپنے شہریوں کو بچانے میں بری طرح ناکام ہے پاکستانی متأثرین کی مدد اس کے بس سے باہر ہے۔اگر مولانا فضل الرحمٰن سمجھتے ہیں کہ حکومت فرضی اعداد و شمار جاری کرکے تبلیغی جماعت کے خلاف غلط تأثر قائم کر رہی ہے تو عدالت میں چیلنج کریں ضروری شواہد کے ساتھ تبلیغی جماعت کی ساکھ کو نقصان پہنچانے پرہرجانے کا مطالبہ کیاجائے غیر ذمہ دارانہ بیان بازی درست نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں