انتخابی اصلاحات ‘مگر کون سی؟ اور کیسی؟

اپوزیشن کئی دہائیوں سے یہ شکایت کرتی چلی آ رہی ہے کہ انتخابات آزادانہ، منصفانہ اور شفاف نہیں ہوتے ۔جب بھی انتخابی نتائج سامنے آئے،انہیں دھاندلی زدہ کہا گیا۔چمک کا نتیجہ،انجینئرڈ، آر او کے تیار کر دہ،وغیرہ وغیرہ اور بہت سارے دوسرے نام دیئے گئے۔ووٹرز کے بارے جلسوں کہا گیا: ”آسمانی مخلوق ووٹ ڈالتی ہے“۔ووٹرز سے پوچھا گیا:” جانتے ہو، آسمانی مخلوق کیا ہے؟“، پھر خود ہی سمجھایا :” نظر نہیں آتی ،مگر ووٹ ڈالنے آ جاتی ہے ،ہمارا مقابلہ اس سے ہے؛ الف یا بے سے نہیںہے،جو الف یا بے کو اقتدار میں لاتے ہیں،ان سے ہے“۔ 2013کے انتخابات میں کی جانے والی تاریخی دھاندلی کے حوالے سے پی ٹی آئی نے چار حلقوں میں دوبارہ گنتی کرانے کا مطالبہ کیا،حکومت(نون لیگ ) نے نہیں مانا ۔ طویل احتجاج کے بعد مانا گیا تو چاروں حلقوں کے انتخابی راز کھلے۔تحقیقاتی کمیشن بنا۔40انتخابی جگہ قوانین کی خلاف ورزی کی نشاندہی کی گئی۔کراچی کے ایک حلقے میں ایک ووٹر کے بارے میں کہا گیا کہ اس نے 70بارووٹ ڈالے ہیں،جو جرم ہے۔پی پی پی کے رہنمابیرسٹرچوہدری اعتزاز احسن نے بتایا ووٹوں کی جگہ بوروں سے ردی اخبارات نکلے۔ لیکن انتخابی دھاندلی کے خلاف طویل اور سنجیدہ تحریک چلانے والی پی ٹی آئی آج اقتدار میں ہونے کے باوجود اپوزیشن کو دعوت دے رہی ہے کہ آو¿ مل کر انتخابی اصلاحات کر لیں، ساری اپوزیشن انکاری ہے۔مسلم لیگ نون کے صدراور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے حکومتی تجویز مسترد کردی ہے۔ انہوں نے کہا ہے :” الیکٹرانک ووٹنگ کا نظام ساری دنیا نے مسترد کر دیا ہے، پاکستانی الیکشن کمیشن ناقابل عمل قرار دے چکا ہے۔“شہباز شریف مزید کہتے ہیں:”ایک فردکی خواہش یا حکم پر ایسے اہم قومی کام انجام نہیں پاتے،عوامی امنگوںاور اعتماد کا مظہرو محورپارلیمان ہے،جسے تین سال سے تالا لگا ہوا ہے، انتخابی اصلاحات تمام فریقوں کی مشاورت اور عوامی رائے کی روشنی اور اتفاق رائے سے ممکن ہوں گی“۔نون لیگ کے رہنمااحسن اقبال بھی کہتے ہیں:” انتخابی اصلاحات میں جو بھی اتفاق رائے پیدا ہوگا اس پر اپوزیشن قانون سازی کے لئے تیار ہوگی، اس حکومت کے کسی بھی کام کو ہم بد اعتمادی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، یہ الیکٹرانک ووٹنگ نہیں، الیکٹرانک دھاندلی کا منصوبہ ہے جس کو ہم کامیاب نہیں ہونے دیں گے، ہم جانتے ہیں اس کے پیچھے کیا سازش کارفرما ہے؟ یہ ایک نیا ایس آر ٹی ایس دھاندلی منصوبہ ہے جس کے ہاتھ میں سلیکٹنگ مشین ہوگی وہ انتخابی نتائج بدلے گا، پوری دنیا میں محفوظ ترین پیپر بیلٹنگ کا طریقہ تسلیم کیا جاتاہے،ہم کسی ایسے منصوبے کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے جس میں ٹیکنالوجی کانام لے کر دھاندلی کا منصوبہ بنایا جائے“ ۔۔۔۔پی پی پی بھی نون لیگ کے ساتھ کھڑی ہے۔پی پی پی کے سیکرٹری جنرل نیر حسین بخاری اور فرحت اللہ بابر نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا:” الیکٹرانک ووٹنگ زیادہ خطرناک ہوگی، جن ممالک نے اس کو شروع کیا تھاانہوں نے بھی اسے چھوڑ دیا، حکومت اپوزیشن سے مذاکرات کرنے میں سنجیدہ نہیں، الیکٹرانک ووٹنگ نظام دھاندلی کو فروغ دے گالہٰذا اسے قبول نہیں کیا جا سکتا۔جے یو آئی کے حافظ حمداللہ (جو پی ڈی ایم کے قائم مقام ترجمان بھی ہیں)نے کہا ہے:”انتخابی اصلاحات کی بات وہ عمران خان کرتے ہیں جن کی حکومت دھاندلی کی گندگی پر کھڑی ہے،چاروں صوبوں میں پی ٹی آئی کی شکست اس کے خلاف عوام کا فیصلہ ہے“۔وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات چوہدری فواد نے کہا:”مسلم لیگ نون کا انتخابی اصلاحات سے فرار افسوس ناک ہے“۔وزیر مملکت فرخ حبیب نے کہا ہے:”شہباز شریف کوئی ایسا سسٹم بتا دیں جس سے دھاندلی کو روکا جا سکے، جو ای ووٹنگ سے بھاگتے ہیں وہی وہی دھاندلی زدہ نظام کا حصہ ہیں“۔ عام آدمی کا انتخابی عمل سے کچھ لینا دینا نہیں۔اگر چار لاکھ کے لگ بھگ ووٹرز کے حلقے(این اے249،بلدیہ کراچی)سے جیتنے والے امیدوار کو صرف 16156 ووٹ ملتے ہیں تو اس کے معنے یہ ہونے چاہیئیںکہ حلقے کے 96فیصد ووٹرز نے اسے مسترد کر دیا ہے اور اس کے باوجود امیدوار اسے اپنی کامیابی سمجھتا ہے تو اسے پارلیمنٹ کے رکن کی حیثیت سے حلف اٹھانے کی بجائے کسی نفسیاتی ڈاکٹر سے فوری مشورہ کرنے کی ضرورت ہے۔وزیر اعظم عمران خان کو چاہیئے کہ اپوزیشن سے صرف ایک انتخابی شرط منوا لیں کہ آئندہ وہ شخص صوبائی اور قومی اسمبلی کا رکن مانا جائے جسے حلقے کے درج شدہ51فیصد ووٹرز نے منتخب کیا ہو۔ان سے پوچھا جائے: کیا پونے چار لاکھ ووٹرز میں سے صرف 16156 ووٹ لینے والے شخص کوحلقہ این اے249کا نمائندہ تسلیم کیا جا سکتا ہے ؟ اراکین پارلیمنٹ نے نام نہاد” انتخاب“ کے نام پر عوام کویرغمال بنا رکھا ہے۔جس حلقے کے96 فیصد ووٹرز نے ایک شخص کو ووٹ نہیں دیا، وہ اس حلقے کی نمائندگی کا دعویٰ کیسے کرسکتا ہے ؟ غیر حاضر ہونا بھی حق رائے دہی کے تحت ایک رائے سمجھی جائے(جیسے بجٹ اجلاس میں غیرحاضر ہونا ایک رائے سمجھی جاتی ہے) تو جورجسٹرڈ ووٹرز 29 اپریل 2021کو پولنگ اسٹیشن نہیں پہنچے ، انہوں نے درحقیقت تمام امیدواروں کے خلاف ووٹ دیا ہے ۔ وہ امیدواروں کے نام دیکھ کر سمجھ گئے کہ ان میں سے ایک بھی قومی اسمبلی کا رکن بننے کے قابل نہیں۔عام آدمی نے موجودہ انتخابی نظام کو مدتوں پہلے مسترد کر دیا تھا اس کا سب سے بڑا ثبوت(چمک کا نتیجہ،انجینئرڈ، آر او کے تیار کر دہ،وغیرہ وغیرہ ) دھاندلی زدہ نتائج ہیں۔عام آدمی کواس انتخابی سسٹم میں کبھی اہمیت نہیں دی گئی۔تھوڑا وقت گزرنے دیں، ملکی سیاست کا چہرہ اپنی اصل حالت میں دکھائی دینے لگے گا۔کون کہاں کھڑا ہے؟ اور کیوں کھڑا ہے؟راز نہیں رہے گا۔ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے مگر اس وقت عالمی تقاضے کچھ اور تھے۔آج کچھ اور ہیں ۔ یہ بھی یاد رہے کہ مذکورہ بالا دھاندلی سے متعلق تمام نام ۔۔۔۔(چمک کا نتیجہ،انجینئرڈ، آر او کے تیار کر دہ،وغیرہ وغیرہ ( پی پی پی کی قیادت نے دیئے ہیں۔جو پارٹی ان القابات سے مزین انتخابی نتائج سے مستفید ہوئی اس کا نام لینے کی ضرورت نہیں،عام آدمی واقف ہے۔حیرانگی کی بات یہ ہے کہ آج پی پی پی بھی اسی پارٹی کے ساتھ کھڑی ہے جس کے بارے میں اس نے ”نام“متعارف کرائے تھے۔ شاید اس لئے کہ ”سلیکٹڈ“ بھی اسی کا دیا ہوا نام ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں