ایسانہ کیجئے

چند روز قبل یورپی یونین کی پارلیمنٹ نے فرانس کی حمایت میں قرارداد (ایک سے زائد قرار دادیں) منظور کرکے پاکستانی عوام اور پاکستان کے حکمرانوں کو ایک اہم اور انتہائی سنجیدہ پیغام دیاہے۔ ان قرار دادوں میں بین السطور کہا گیا ہے:”یہ قرار داد 27یورپی کی مشترکہ پارلیمنٹ اس لئے منظور کرنے پر مجبور ہوئی ہے کہ پاکستان کے سادہ لوح عوام اور ماضی کے خوابوں میں گم حکمرانوں کو یاد دلایا جائے؛ جدیددور کی سوچ ’ماضی کی سوچ‘کے برعکس ہے۔ماضی کی سوچ دنیاکو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے میں فلاح تلاش کر رہی تھی،مگر جدید دور بہت سی چھوٹی اکائیوں کو یکجا کرکے بڑی اکائی میں فلاح تلاش کرنے نکلی ہے، یورپی یونین اس کا پہلا قدم ہے“۔مذکورہ قرارداد کے ذریعے 1945 والی”اقوام متحدہ“(UNO)کو بھی یاد دلایا گیا ہے اپنے عمل سے خود کو اقوام عالم کی نمائندہ تنظیم ثابت کرو، تمام اکائیوں کایکساں خیال رکھو، صرف 5اکائیوں کے اشاروں پر چلنا بند کرو ورنہ تم بھی تاریخ کے کوڑے دان کا حصہ بن جاؤگی“۔اچھاہوا پاکستان کی کابینہ کے اجلاس میں یورپی پارلیمنٹ کی قرارداد کے مضمرات پر ٹھنڈے دل سے غور کیاگیااور پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ بادیئ النظر میں جو زیادتی اور ناانصافی ہو رہی تھی اسے دور کرنے کیلئے ضروری قانون سازی کا عندیہ دیا ہے۔ جبری گم شدگی، صحافیوں کے تحفظ اور آزادیئ اظہار کے قوانین جلد پارلیمنٹ میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ کابینہ کے خیال میں توہین رسالت قوانین سے جی ایس پلس معاہدے کا کوئی تعلق نہیں۔واضح رہے جی ایس پلس معاہدے سے پاکستان کو 3ارب ڈالرفائدہ ہو رہا ہے، معاہدہ ختم ہوتے ہی یہ فائدہ ملنا بند ہو جائے گا۔یورپی یونین نے پاکستان کو خبردار کیا ہے کہ خود کو الگ تھلگ جزیرہ سمجھنا درست نہیں۔ دوسری جانب ایران اور سعودی عرب کے درمیان خاموشی سے جاری مذاکرات میں مثبت پیش رفت کی اطلاعات بھی خوش آئند ہیں۔ چند سال پہلے جب وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا: ”ثالث کی حیثیت سے ہم کوشش کریں گے سعودی عرب اور ایران جنگ کی بجائے مذاکرات کے ذیعے اپنے تنازعات حل کریں“،تو بعض مبصرین نے اس دعوے پر شکوک کا اظہار کیا تھالیکن وقت نے ثابت کر دیا کہ ایسا ممکن ہے۔مبصرین ساحل سے طوفان کا نظارہ کرتے ہیں، اس لئے انہیں اصل حقائق کادرست علم نہیں ہوتا، ان کے تبصرے مفروضوں پر مبنی ہوتے ہیں اور مفروضے حقائق کامتبادل نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے برصغیر کے مسلم فلسفی اور شاعر علامہ اقبال نے کہا تھا: ”ساحل پر بزم نہ سجاؤ کہ وہاں زندگی بڑی پر سکون ہے،سمندر میں کودو،اس کی موجوں سے نبرد آزما ہوجاؤ، اس لئے کہ حیات جاوداں اسی لڑائی میں پنہاں ہے“۔ایران اور سعودی عرب کئی دہائیوں سے میدان جنگ میں ایک دوسرے کوشکست دینے کی تگ و دو کررہے ہیں، دونوں کو اندازہ ہے کہ اس جنگ میں کوئی فریق کبھی بھی خود کو ”فاتح“ کہلانے کی پوزیشن میں نہیں ہوگا۔دونوں کو احساس ہے ایک بے مقصد جنگ میں اپنے قیمتی وسائل تباہ کر رہے ہیں۔ دونوں جانتے یہ وسائل بتدریج ختم ہوتے جا رہے ہیں،امریکہ بھی پسپائی پر مجبور ہوگیا ہے۔اسلحہ سازی سے جتنا کما چکا ہے،وہ آخری حدوں کو چھونے لگا ہے اسے ہمیشہ کمائی کا ذریعہ نہیں بنایا جا سکتا۔افغانستان سے شرمناک واپسی نے اسے نڈھال کردیا ہے۔بھارت کے ساتھ مل کر کی گئی منصوبہ بندی کا شیرازہ بکھر گیا ہے۔بی جے پی کی ہندوانہ سوچ کورونا کے سامنے بے بس دکھائی دیتی ہے، گائے کا گوبر اور گائے کاپیشاب کورونا کا علاج ثابت نہیں ہوئے۔کووڈ ویکسین ہی کارآمد ہے۔اسپتالوں میں بیڈز اور آکسیجن کی شدید کمی ہے۔ بھارت کے دارالحکومت دہلی کے اسپتالوں کو روزانہ 976ٹن آکسیجن درکار ہے مگر دستیاب صرف 490ٹن ہے۔ (اور یہ ضرورت کا نصف ہے)۔پورے بھارت کی صورت حال کا اندازہ لگانے کے لئے دہلی کے اعدادوشمار کافی ہیں۔ مغربی بنگال میں ممتا بنرجی کی جماعت نے ماضی کے مقابلے میں زیادہ نشستیں جیتی ہیں،جبکہ بی جے پی اپنی سرتوڑ کوشش کے باوجود پہلے سے کم نشستیں حاصل کر سکی ہے۔بھارتی دانشور کہہ رہے ہیں: ”ممتا بنرجی کی صورت میں اپوزیشن کو ایک ایسی قائد مل گئی ہے جو ملک سے مودی کے سیاسی اثرات ہی نہیں،بلکہ اس کی انتہا پسندانہ سوچ کا خاتمہ بھی کر سکتی ہے۔اس کے نتیجے میں بھارت ایک بار پھر تمام مذاہب کا وطن بن جائے گا“۔یہ حقیقت بھی نظر انداز نہ کی جائے کہ خطے سے امریکی پسپائی کا اثر ایران اور سعودی عرب کے علاوہ بھارت پر بھی پڑے گا۔امریکی سائنسی ادارے ناساکی چکاچوند تحقیقات سے حد درجہ متأثر پاکستانی مبصرین بھی جلد یا بدیر تسلیم کر لیں گے کہ امریکہ نے دنیا کا چوہدری بننے کی ضد ترک کر دی ہے یا اسے کچھ وقت کے لئے سرد خانے میں رکھنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ یاد رہے امریکہ کا بجٹ خسارہ3.42ٹریلین ڈالرتک پہنچ چکا ہے۔اسے ساڑھے تین ہزار ارب ڈالر کہنے میں کوئی ہرج نہیں۔یہ بھی یاد رہے کہ ابھی پاکستان کا تجارتی خسارہ امریکی خسارے کے مقابلے
میں بہت کم ہے۔اس کے باوجود ہماری چیخیں نکل رہی ہیں، امریکی معیشت کس قدربدحال ہے اس کا اندازہ آنے والے دنوں میں ہوگا۔یورپی یونین کی پارلیمنٹ نے پاکستان کوبروقت جگا دیا ہے، وزیر اعظم عمران خان اور ان کی کابینہ نے اچھا کیا یورپی پارلیمنٹ کی قراردادوں کا بروقت نوٹس لے لیا،اور مزید غلطیوں سے بچ گئے۔3ارب ڈالر کی آمدنی پاکستانی معیشت کے لئے بڑی تقویت کا باعث ہے۔اور یہ بھی دیکھا جائے کہ یورپی یونین نے پاکستان سے جس قانون سازی کا مطالبہ کیاہے وہ پاکستان میں پہلے سے کیاجارہا تھا۔جبری گم شدگی اور صحافیوں کا راہ چلتے اٹھ جاناکبھی بھی باشعور طبقے نے پسند نہیں کیا۔ بلوچ قوم پرست رہنما پی ٹی آئی اتحادسے علیحدہ اسی بناء پر ہوئے ہیں کہ وزیراعظم جبری گمشدگی کی روک تھام کا وعدہ پورا نہیں کر سکے۔توہین رسالت کے نام پر ذاتی رنجش کا انتقام لینا بھی جرم قرار دیا جانا ضروری ہے۔قانون میں کوئی خامی ہے تو اسے دور کرنا بھی پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے۔عالمی برادری (27ملکوں) کی پارلیمنٹ نے نشاندہی کی ہے ان کی شکایت دور کی جائے۔مان لیں؛پاکستان دنیا کا حصہ ہے الگ تھلگ جزیرہ نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں