وزیراعظم کی خوشخبری

وزیر اعظم عمران خان نے سعودی عرب کے تین روزہ دورہ میں روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے میں پاکستانی عوام کو خوشخبری دیتا ہوں کہ اب تبدیلی کو کوئی نہیں روک سکتا، نیا پاکستان جلد سامنے آئے گا۔انہوں نے کہا ایک طرف مافیازکی کوشش ہے کہ پرانانظام جاری رہے،مافیاز سے ہماری جنگ جاری ہے،اسے منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔تھوڑا وقت لگے گا لیکن نیا پاکستان جلد ابھر کر سامنے آئے گا۔نئے پاکستان میں آئین، قانون اور انصاف کی بالا دستی ہوگی۔عوام ہمارے ساتھ ہیں، ہم عوام کی مدد سے مافیاز کو شکست دیں گے۔پاکستان سے روانگی سے پہلے وزیر اعظم نے سعودی سفیر کو ان کی غیر معیاری کارکردگی پر نہ صرف واپس بلایا بلکہ ان کے خلاف انکوائری بھی جاری ہے،اور وزیر اعظم کا سخت رد عمل بھی آج کل میڈیا میں زیربحث ہے۔مبصرین حسب معمول دو آراء دے رہے ہیں۔ایک گروپ اسے خوش آئند تصور کرتا ہے جبکہ دوسرا اسے وزیر خارجہ کی ناکامی کہہ رہاہے۔وزیر اعظم اوورسیز پاکستانیوں کوروز اول سے اہمیت دیتے ہیں اور ان کی بھیجی ہوئی رقوم کو پاکستان پر ایک احسان سمجھتے ہیں۔یہ بھی یاد رہے کہ اوورسیز پاکستانیوں کی تعداد 90 لاکھ ہے۔انہیں ووٹ کا حق حاصل ہے۔ووٹر کی حیثیت سے ان کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ میں ایک ارب ڈالر سے زائد ڈالرز جمع ہونا بھی ایک عنصر سمجھا جائے۔دنیا بھر کے سفیر اپنے شہریوں کی خدمت کے لئے ہمیشہ پیش پیش رہتے ہیں، جبکہ پاکستانی سفارت خانے ایسی شہرت نہیں رکھتے۔ملکی برآمدات بڑھانے میں بھی ان کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے۔ان کی تمام تر کوشش اور توجہ صرف اپنے خاندان کے مفادات تک محدود ہوتی ہے۔چند وی آئی پیز کے لئے ان کی خدمات کے علاوہ ان کے پاس دکھانے کو کچھ نہیں۔اس تناظر میں وزیر اعظم عمران خان سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ سفیروں کو پرانی راہ پر چلنے کی اجازت دیں گے۔سفیروں کو اپنی عادات اور رویئے میں بہتری لانا ہوگی۔ڈھائی سال کی خاموشی اور دھیمے لہجے میں کی جانے والی نصیحتوں کو سفارت خانے نہیں مانے اس لئے اب وہی کرنا ہوگا جس کی ہدایت وزیر اعظم دیں گے۔وزیر اعظم کی بدقسمتی ہے کہ انہیں اپنی پسند اور معیار کے 200اہل، قابل اور کام کی لگن رکھنے والے افراد میسر نہیں آئے،ان میں کابینہ بھی شامل ہے۔ادھر آئی ایم ایف جیسے طاقتور مالیاتی ادارے سے قرض لئے بغیر معیشت آگے نہیں بڑھ سکتی۔ایسی مجبوریاں کا سامنا ہو تو وہی کچھ کرنا پڑتا ہے جو آج تک تمام پاکستانی حکومتیں (پی پی پی، مسلم لیگ نون اور جنرل پرویز مشرف)کرتی رہی ہیں۔عالمی اداروں میں کام کرنے والے افراد کو وزارت خزانہ دی گئی۔ایک ملازم (معین قریشی) کو وزیر اعظم پہلے بنایا گیا اور ان کا قومی شناختی کارڈ بعد میں بناتھا۔اور اسے وزیر اعظم بنانے پر میاں محمدنواز شریف اور محترمہ بینظیر بھٹو دونوں رضامند تھے۔اپوزیشن مانے یا نہ مانے سچ یہی ہے کہ معیشت کو زوال پذیر راستے پر ڈالنے میں سب کا حصہ ہے۔عمران خان اور ان کی سیاسی جماعت پی ٹی آئی کے پاس کام کرنے کے لئے ڈھائی سال ہیں۔اپوزیشن حکومت سے اپنی مرضی منوانے میں تا حال کامیاب نہیں ہوسکی۔بجٹ کی منظوری کے وقت اگر حکومت کے لئے اتنی مشکلات پیدا کر سکی کہ اپنے مطالبات منوا سکے تو کچھ آسانیاں مل جائیں گی لیکن موجودہ حالات میں اس کے امکانات کم ہیں۔مسلم لیگ نون کے صدر شہباز شریف کا جہاز سے آف لوڈ ہونا اپوزیشن سے محاذ آرائی میں اضافے کا سبب بنے گا۔پہلا مظاہرہ عدالتوں میں قانونی جنگ کی صورت میں دیکھنے کو ملے گا جبکہ سیاسی محاذ پر بھی گہما گہمی بڑھے گی۔پی پی پی اور اے این پی کے جانے کے بعد پی ڈی ایم لاکھ کہے کہ کوئی فرق نہیں پڑا ہے مگر حقیقتاً پہلے والی اپوزیشن نہیں ہوگی۔ ان کی علیحدگی سے صرف ساکھ کو دھچکا نہیں لگا بلکہ آپس میں تو تو میں میں بھی شروع ہو گئی ہے۔ ایک سٹیج پر بیٹھ کر یکجہتی کا اظہار کرنا اور اپنے دفاتر سے ایک دوسرے پر لفظی گولہ باری میں فرق ہے۔تینوں پارٹیوں کی قیادت حقائق سے واقف ہے۔ پاکستان کی سیاست کے بارے میں سب پارٹیاں کھلے عام اعتراف کرتی ہیں کہ ”ریموٹ کنٹرول“ ہے۔اس کے معنے یہی ہوتے ہیں کہ کسی لمحے کوئی ان ہونی بات ہو سکتی ہے۔کوئی غیر متوقع منظر دیکھنے کو مل سکتا ہے۔جہانگیر ترین جب چاہیں اپنے دوستوں سے یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دلوا دیں اور جب چاہیں وزیر اعظم کے اعتماد کے ووٹ کا حصہ بنا دیں۔میڈیا میں افواہ گشت کرہی ہے کہ جہانگیر ترین اب ایک نئی پارٹی بنانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔اس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیئے کہ جس کے پاس 30،35ایم این ایز، ایم پی ایز پہلے سے موجود ہوں اسے اتنے ہی مزید مل سکتے ہیں۔ 50، 60ایم این ایز اور ایم پی ایز کی قوت کے ساتھ حکومت کے لئے پریشانی پیداکرنا کوئی مشکل کام نہیں۔جہانگیر ترین کے ساتھ کھڑے ایم این ایز کا دعویٰ ہے عمران خان کو اقتدار اور اعتماد کا ووٹ دلانے میں مرکزی کردار جہانگیر ترین کا تھا،اس لئے ان کی علیحدگی اس اقتدار کے خاتمہ کا باعث بنے گی۔فی الحال اسے ایک خوبصورت خواب کہنے میں کوئی حرج نہیں۔ خواب دیکھنے پر کوئی خرچہ نہیں آتا۔بس ایک کشادہ لان اور افطار ڈنر کافی ہے۔لیکن زمینی تقاضوں میں ”ریموٹ کنٹرول“ کی آشیر باد کو نظر انداز کر دیا جائے تو یہ خواب کسی تعبیر کے بغیر ہی غائب ہونے میں دیر نہیں لگتی۔شہباز شریف اپنی آنکھوں میں خواب سجائے جہاز میں سوار ہو چکے تھے،ایف آئی کے دو تین نچلے درجے کے افسران نے انہیں آف لوڈ کرکے سارے خواب وقتی طور پر چکنا چور کر دیئے۔انہیں دوحہ میں بھی کچھ دیر رکنا تھا،کچھ دوستوں سے ملنا تھا، برطانوی اور چینی سفیر سے ملاقات کر چکے تھے۔عام آدمی یہ نہیں سمجھ سکا کہ ایک ایسے بیمار شخص کوجس کا علاج پاکستان کے کسی اسپتال میں ممکن نہیں،دو سفارت خانوں میں جانے کی کیا ضرورت تھی؟ بعض مبصرین ان کی لندن روانگی کو عالمی سیاست کے تناظر میں دیکھنے لگے تھے، انہیں بھی مایوسی کے ساتھ حیرانگی ضرور ہوئی ہوگی۔اگر شہباز شریف جہاز سے اتر کر اپنے گھر نہ جاتے تو افواہ ساز وں کاکام جاری رہتا۔اب وزیر اعظم عمران خان کی نئے پاکستان والی خوش خبری کو تعطیلات کے دوران موضوع بحث بنانے کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔گویا 16مئی تک خوابوں کے محل ٹی وی چینلز کی محافل میں نظر نہیں آئیں گے اور16مئی ابھی دور ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں