خیبر پختونخوا میں 44 پولیس اہلکار کرونا سے ہلاک، 1500 سے زائد متاثر ہوئے

پشاور :خیبر پختونخوا میں عام لوگوں اور محکمہ صحت سے منسلک ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملے میں شامل افراد کے علاوہ پولیس کے افسران اور اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد بھی کرونا وائرس سے متاثر ہونے والوں میں شامل ہے۔

محکمہ پولیس کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا میں اب تک 1500 سو سے زائد پولیس اہلکاروں میں کرونا وائرس کی تشخیص ہوچکی ہے جب کہ اس وبا کی لپیٹ میں آنے والے 44 اہلکار اپنی زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔پولیس رپورٹ کے مطابق ہلاک ہونے والے اہلکاروں کی سب سے زیادہ تعداد خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور سے ہے جہاں کرونا وائرس سے متاثر ہونے کے بعد 13 اہلکاروں کی موت ہوچکی ہے۔

متاثر ہونے والوں کی زیادہ تر تعداد کا تعلق ضلع ہزارہ سے ہے جہاں 434 اہلکاروں میں کرونا کی تشخیص ہوئی اور اب تک 10 اہلکار انتقال کر چکے ہیں۔اسی طرح ضلع مردان میں وبا سے متاثرہ اہلکاروں کی تعداد 151 ہے جب کہ یہاں 10 پولیس اہلکار اس وائرس سے ہلاک ہو چکے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ محکمۂ پولیس کے افسران اور جوان بھی کرونا وائرس سے پیدا شدہ صورتِ حال کے نتیجے میں فرنٹ لائن ورکرز کی طرح ہی کام کر رہے ہیں۔ مگر ان کو ڈاکٹروں اور محکمۂ صحت کے دیگر اہلکاروں کی طرح ترجیحی بنیادوں پر ویکسی نیشن کے عمل میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔

گزشتہ سال مارچ میں وبا کے پھیلنے کے بعد وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے کرونا سے ہلاک ہونے والے ڈاکٹروں اور سیکیورٹی اہلکاروں کے علاوہ صحافیوں کے لواحقین کے لیے بھی خصوصی امدادی پیکجز دینے کا اعلان کیا تھا۔ بعد میں ان اعلانات پر عمل در آمد نہیں کیا گیا۔تاہم پولیس فورسز کے ان اہلکاروں کے لیے جو کرونا سے متاثر ہوئے ہیں ان کے لیے کسی امدادی پیکج کا اعلان نہیں کیا گیا۔

اس حوالے سے پشاور پولیس کے سربراہ عباس احسن بتایا کہ کرونا وائرس سے متاثر ہونے والے حتیٰ کہ ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کے لیے بھی کوئی خصوصی پیکج یا معاوضے کی ادائیگی نہیں کی جاتی۔

انہوں نے کہا کہ جو بھی کرونا سے مر جاتا ہے تو ان کے لواحقین کے لیے پولیس رولز یا سرکاری ملازمین کے لیے حکومت کی پالیسی کے مطابق صرف پنشن وغیرہ کی ادائیگی کی جاتی ہے۔

عباس احسن کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے واقعات میں ہلاک ہونے والے پولیس اہلکاروں اور افسران کے لواحقین یا زخمیوں کے لیے پہلے سے ایک ’شہدا پیکج‘ پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے لیکن کرونا سے ہلاک یا متاثر ہونے والے اس شہدا پیکج میں شامل نہیں۔

خیال رہے کہ خیبر پختونخوا میں تین ہزار 880 کے قریب ہیلتھ ورکرز کرونا سے متاثر ہوئے جب کہ اب تک وائرس سے 42 ہیلتھ ورکز اور 65 ڈاکٹر جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ادھر افغانستان سے پاکستانی باشندوں کی طورخم کے راستے واپسی کا سلسلہ جاری ہے۔

حکام نے بتایا کہ اتوار کو طورخم کے راستے 721 افراد واپس آئے ہیں۔ واپسی پر ان افراد کے کرونا ٹیسٹ بھی کیے جا رہے ہیں۔ ابھی تک افغاستان سے واپس آنے والے پانچ افراد میں کرونا وائرس سے متاثر ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔

ان پانچ افراد میں دو مقامی افراد ہیں جب کہ تین کا تعلق پنجاب سے بتایا جاتا ہے جنہیں طورخم سے ملحقہ سرحدی قصبے لنڈی کوتل کے ضلعی ہیڈ کوارٹر اسپتال میں داخل کروایا گیا۔

پاکستان کے دیگر صوبوں اور علاقوں کی طرح خیبر پختونخوا میں کرونا وائرس سے پیدا شدہ صورت حال پر قابو پانے کے لیے گزشتہ تین روز سے لاک ڈاؤن نافذ ہے۔پشاور سمیت مختلف شہروں اور علاقوں میں تمام بازار، تجارتی مارکیٹیں اور کاروباری سرگرمیاں مکمل طور پر بند ہیں۔

سرکاری اور نجی اداروں کے دفاتر بھی بند ہیں جب کہ صوبے کے تمام تر اضلاع میں پبلک ٹرانسپورٹ پر بھی پابندی عائد ہے۔خیبر پختونخوا حکومت نے سیاحتی مقامات پر لاک ڈاؤن کے سلسلے میں عائد پابندی میں تبدیلی کی ہیں۔

محکمہ سیاحت کے ترجمان لطیف الرحمان نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ غیر ملکی سیاح اس پابندی سے متشنیٰ ہوں گے۔ وہ خیبر پختونخوا کے کسی بھی سیاحتی مقام پر جا سکتے ہیں اور وہاں قیام کر سکتے ہیں۔

صوبائی محکمہ صحت کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق ملک بھر میں پچھلے چوبیس گھنٹوں میں کورونا سے ہونے والی 78 اموات میں سے 27 کا تعلق خیبر پختونخوا سے ہے۔

’نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر‘ کے اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں کرونا کے مجموعی کیسز کی تعداد ایک لاکھ 24 ہزار سے زائد ہوچکی ہے جب کہ فعال کیسز کی تعداد 9ہزار سے زائد ہے۔ اس کے علاوہ صوبے میں وائرس کا شکار ہونے والے تین ہزار 615 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

دوسری جانب خیبر پختونخوا میں کورونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسی نیشن کا عمل جاری ہے اور 3 لاکھ 78 ہزار سے زائد عام شہریوں اور ایک لاکھ سے زائد محکمہ صحت کے اہلکاروں کو ویکسین کی خوراکیں لگائی جا چکی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں