ڈاکٹروں کو حفاظتی کٹس فراہم کی جائیں

آج کا اداریہ
ڈاکٹرز اور پیرامیڈکس کا حفاظتی کٹس کی فراہمی کا مطالبہ ہر لحاظ سے جائز ہے۔کورونا وائرس کے مریضوں کا علاج خود کو موت کے منہ میں لے جانے کے برابر ہے۔متعددڈاکٹر، نرسیں اور پیر ا میڈکس کرونا وائرس کے مریضوں کا علاج کرتے ہوئے جان کی قربانی دے چکے ہیں۔یہ تو ان کا احسان ہے کہ وہ حفاظتی کٹس کے بغیر بھی لوگوں کی جان بچانے کے لئے اپنے فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔کیا کوئٹہ پولیس کے علم میں یہ حقیقت نہیں تھی کہ پاکستان میں ہر جگہ ڈاکٹرز کو مشکل ترین صورت حال میں کروناوائرس کے خلاف جنگ لڑتے دیکھ کر پولیس سمیت پوری قوم خراج تحسین پیش کر رہی ہے عملی طور پر سیلیوٹ کر رہی ہے۔انہیں ذرا احساس نہیں ہوا کہ وہ اپنے محسنوں پر کیوں لاٹھی چارج کر رہے ہیں؟ ان کا قصور کیا ہے؟خطرناک اور جان لیوا مرض میں مبتلامریض کا علاج کرنے کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ ڈاکٹر اپنی جان کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔انہیں حفاظتی کٹس فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ نوبت ہی کیوں آئی؟ڈاکٹروں کویہ مطالبہ کیوں کرنا پڑا کہ انہیں حفاظتی کٹس فراہم کی جائیں۔صوبائی ا ور وفاقی سیکرٹری صحت اور وزیر صحت نے غیر ذمہ داری کیوں برتی؟ کرونا کی وبا فروری کے اوائل میں ہمسایہ ملک چین میں قدم جما چکی تھی۔پھر اس کے ایران میں پہنچنے کی اطلاعات بھی موصول ہو رہی تھیں۔وفاقی اور صوبائی حکومت اس حقیقت سے بھی باخبر تھیں کہ ہزاروں پاکستانی شہری مقدس مقامات کی زیارت کرنے کے لئے ان دنوں ایران میں موجود ہیں۔ان کی واپسی پر کرونا وائرس پاکستان منتقل ہوجائے گا۔کرونا وائرس سے متأثر شخص دوسرے صحت مند لوگوں تک اس موذی وائرس کو پہنچانے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔جس سے ہاتھ ملاتا ہے، گلے ملتا ہے اسے وائرس منتقل کر دیتا ہے۔اس کا کھانسنا یا چھینکنا ضروری نہیں۔ان ظاہری علامتوں کے بغیر بھی زائرین اس بیماری کو پھیلانے کی چلتی پھرتی کان بن جاتے ہیں۔ایک مریض تین آدمیوں کو مریض بناتا ہے، وہ تین اس مرض کو 9افراد تک پہنچاتے ہیں اور پھر سیکنڈوں میں 27مزید بیمار ہو جاتے ہیں۔اٹلی، امریکا، اسپین، فرانس،برطانیہ،ایران اور جرمنی کی مثالیں موجود تھیں۔ حفاظتی کٹ اور ماسک کی تیاری کوئی مشکل کام نہیں وزارت صحت کی غفلت اور عدم توجہی کے سبب بر وقت انہیں تیار نہیں کیا گیا۔ بلکہ ان کی بروقت تیاری سے ملک کو قیمتی زر مبادلہ کمانے کا سنہری موقع مل جاتا۔ وینٹی لیٹرز کی شدید قلت نہ ہوتی یہ بھی ملک میں تیار کئے جا سکتے تھے۔ پاکستان تسلیم شدہ ایٹمی قوت ہے۔اس صلاحیت کا مالک ملک وینٹی لیٹر با آسانی تیار کر سکتا ہے۔ چین نے مشکل ترین صورت حال کا اپنی لگن، عوام، دوستی، حب الوطنی اور ماہرانہ منصوبہ بندی سے مقابلہ کیا اور اسی دوران اس نے امریکا سمیت دیگر ممالک کو بھی حفاظتی کٹس اور متعلقہ سازو سامان کی برآمدکو بھی اہمیت دی۔ جیسے ہی کرونا کا پھیلاؤ کمزور پڑا اس نے کنٹینرز ضرورت مند ممالک کو بھیجنا شروع کر دیئے۔اگر پاکستان میں بھی چین جیسی ہوشمند، معاملہ فہم اور نئے امکانات کا اندازہ لگانے اور اس موقعے سے فائدہ اٹھانے کی اہلیت کی حامل حکومت ہوتی تو مختصر وقت میں غیر ملکی اور ملکی قرضوں سے نجات حاصل کر سکتی تھی۔اب کفِ افسوس ملنے،گئے وقت پر آنسو بہانے یا ایک دوسرے کو ملامت کرنے کی بجائے سمجھداری کاثبوت دیا جائے تو بہت کچھ کیا جا سکتا ہے۔ابھی وائرس کا گراف تیزی سے اوپر جا رہا ہے۔تقریباً ساری دنیا ایک منڈی کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ہر جگہ گاہک حفاظتی کٹس، سینی ٹائزر، وینٹی لیٹرز اور متعلقہ سازوسامان خریدنے کیلئے بیتاب ہیں کوئی مال لے کر آئے سب شدت سے منتظر ہیں۔پاکستان اس صورتِ حال کوخوش قسمتی میں ڈھال سکتا ہے۔ہاؤسنگ سے زیادہ اس جانب توجہ دی جاتی مگر کیا کیا جائے دوسروں پر تکیہ کرنے والے بیوروکریٹس کے مشوروں پر چلنے کی غلطی دہرانے کا یہی نتیجہ نکل سکتا تھا۔پی ٹی آئی نے اپنے تھنک ٹینکس تیار نہیں کئے سابق حکومتوں غلط مشورے دینے والے بیوروکریٹس کو نئے پاکستان کی تعمیر کا مشکل کام سونپ دیا۔شائد 25اپریل کی متوقع فرانزک رپورٹ اس حوالے سے حکمرانوں کی آنکھیں کھولنے میں مدددے سکے۔اپنی ذات تک سوچنے اور اپنی ناک سے آگے نہ دیکھنے والی ذہنیت منکشف ہو جائے۔عمران خان کو ان کی دعاؤں کے صدقے میں اللہ نے وزیر اعظم کی کرسی پر بٹھا دیا ہے یہی موقع انہوں نے اللہ سے مانگا تھا۔یہ تو جلد ہی معلوم ہوجائے گا کہ عمران خان اپنی دعاؤں کے نتیجے میں ملنے والے اس موقع کو کیسے استعمال کرتے ہیں؟البتہ یہ پیشگوئی پورے وثوق سے کی جا سکتی ہے کہ آٹے چینی کا بحران پیدا کرکے چندٹکے کمانے کی فرسودہ سوچ کے حامل اپنے ساتھیوں کی مدد سے اس منزل تک نہیں پہنچ سکیں گے جس کا خواب انہوں نے 22سالہ سیاسی جدوجہد کے دوران دیکھا تھا۔یہ تونہتے ڈاکٹروں پر لاٹھیاں برسانے سے زیادہ کچھ نہیں جانتے کچھ نہیں کر سکتے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں