کورونا کی آڑ میں منشیات اور نیب کے ملزمان کی رہائی

اسے عجیب صورت حال کہا جائے یا روزمرّہ کی کارروائی؟سپریم کورٹ کا فیصلہ سامنے نہ آتا تو ادھر کسی کا دھیان ہی نہ جاتا۔آئینِ پاکستان میں انسانی زندگی اور آزادی کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ جو شخص منشیات فروشی کے الزام میں انڈر ٹرائل قیدی کی حیثیت سے جیل میں قید ہے وہ شہریوں کی زندگی کے لئے خطرہ تھا اس لئے قانون کے تحت اسے گرفتار کرکے جیل پہنچا دیا گیاتاکہ لوگوں کی زندگی محفوظ رہے۔سپریم کورٹ میں دائر کردہ درخواست کی سماعت کے دوران کہا گیا ہے ملزموں کی سزاکی معطلی کے ذریعے رہائی کے بارے میں ایک میکنزم ہے لیکن ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی لگائی جانے والی ہیلتھ ایمرجنسی کے تحت ملزموں کی اکٹھے رہائی کا کوئی تصور نہیں۔ بین الاقوامی آرگنائزیشن کی ایڈوائزری وزارتِ داخلہ کے ذریعے ممبر ممالک تک پہنچائی جاتی ہے لیکن وزارتِ خارجہ کے ذریعے جیلوں کو خالی کرنے کے حوالے سے کوئی ایڈوائزری جاری نہیں کی گئی۔ہائی کورٹ صرف ایسے ملزم کو رہا کرسکتی ہے جس کو عدالت میں پیش کیا گیا ہوکہ اس کو کسی وارنٹ کے بغیر گرفتار کیا گیا ہے لیکن وہ کسی بھی ایسے ملزم کو رہا نہیں کرے گی جس کے بارے میں یہ قابل جواز مواد موجود ہو کہ وہ سزائے موت، عمر قید یا 10سال قید کے جرم میں ملوث ہے مزید برآں اس ملزم کو اس وقت تک رہا نہیں کیا جائے گاجب تک کہ استغاثہ کو یہ نوٹس جاری نہیں کیا جاتا کہ ان وجوہات سے عدالت کو آگاہ کرے کہ ملزم کو کیوں نہ رہا کیا جائے؟عام آدمی کے لئے سپریم کورٹ کی مذکورہ بالا یاد دہانی انتہائی معلوماتی اور چشم کشا ہے۔عام آدمی تو بیچارہ دال روٹی کی تگ و دو میں اس قدر مصروف رہتا ہے کہ اسے تو اپنے بچوں کی عمریں بھی یاد نہیں، وہ ہاتھ کے اشارے سے بتاتا ہے کہ فلاں بچے کا قد اتنا اور دوسرے بچے کا قد اتنا ہو گیا ہے۔ اس قابل بھی اس لئے ہوا کہ یکم مئی 1886میں شکاگو کے بہادر مزدوروں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے
”8 گھنٹے کام کے، 8 گھنٹے آرام کے اور 8 گھنٹے خاندان کے“
جیسا تاریخی مطالبہ منوایا تھا۔ورنہ 16،16گھنٹے کارخانوں میں کام کرتے ہوئے وہ صبح سویرے اندھیرے میں اپنے بچوں کو سوتا چھوڑ کر نکلتے اور رات گئے گھر میں داخل ہوتے جب وہ سو رہے ہوتے تھے، اس لئے وہ بچوں کا قد افقی حالت میں ہاتھ پھیلا کر بتایا کرتے تھے عموداً قد بتانا انہوں نے ان دنوں سیکھا ہی نہیں تھا۔آج کل عام آدمی کرونا وائرس سے بچاؤ کے لئے کئے جانے والے لاک ڈاؤن کے نتیجے میں گزشتہ دو تین ہفتوں سے بیروزگار ہے اور بھوک کے عفریت سے لڑ رہا ہے حکومت ابھی تک اس کا نام و پتہ پوچھ رہی ہے کہ راشن اس تک پہنچایا جائے۔عام آدمی کو تو یہ بھی معلوم نہیں کہ اسلام آباد ہائی کورٹ یا دوسری ہائی کورٹس نے کتنے منشیات کے کاروبار میں ملوث ملزمان کو کورونا وائرس کے نام پر جیلوں سے رہا کر دیا ہے اور کتنے ملزمان نیب کی قید سے نکل کر اپنے محل نما گھر پر عیش و آرام کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ملزمان کے وکلاء کی جانب سے یہ دلیل پیش کی گئی تھی کہ ہمساری ملزموں سے بھری جیلیں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے لئے نرسری بن سکتی ہیں،تو عدالت نے کہا دنیا کے چند ایسے ممالک کو چھوڑ کر جہاں جرائم کی شرح انتہائی کم ہے باقی سب جگہ قیدی جیلوں میں گنجائش سے زیادہ ہیں۔ سپریم کورٹ نے بجا طور پر درست کہا ہے کہ ہائی کورٹس کو سوموٹو کے اختیارات کے تحت کورونا وائرس ایشو کے حوالے سے ایکشن لینے یا فیصلہ صادر کرنے کا کوئی اختیار نہیں۔چنانچہ ہائیکورٹس کی جانب سے کورونا وائرس کی بنیاد پر رہائی کے احکامات کوکالعدم قرار دے دیا ہے اور رہائی پانے والے ملزمان کی فوری گرفتاری کے احکامات صادر کئے ہیں۔اس فیصلے میں سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے زبانی حکم پر قیدیوں کی رہائی کو پریشان کن صورت حال قرار دیا ہے۔24اور26مارچ دیئے گئے احکامات کو کالعدم اور ضمانتوں کو منسوخ کر دیا ہے۔عام آدمی کے لئے اس فیصلے میں امید کی ایک دھندلی سے رمق یہ ہے کہ آئندہ اس قسم کی ہنگامی صورت حال پیدا ہونے پر ہائی کورٹس کی جانب سے منشیات کے کاروبار میں ملوث ملزمان اور نیب کے مالیاتی جرائم میں ملوث ملزمان کو ہائی کورٹس سوموٹو اختیارات کے تحت رہا نہیں کریں گی نہ ہی زبانی حکم پر ملزمان کی رہائی عمل میں لائی جا سکے گی۔تاہم سپریم کورٹ سے عام شہری یہ توقع کرتا ہے کہ سوموٹو اختیارات کے حوالے سے ایک واضح جامع غیر مبہم اور شفاف ضابطہ مرتب کردے جو آئندہ اس قسم کے مضحکہ خیز مناظر کا سدباب کر سکے۔عدالتی فیصلہ اگر قانونی دائرے سے باہر رہتے ہوئے دیا جائے تو اسے عدالتی فیصلہ نہیں کہا جا سکتا۔برطانوی وزیراعظم چرچل نے عدالتوں کے آزادانہ مگر قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرنے کو ملک کی سلامتی قرار دیا تھا کاش پاکستان میں بھی عام شہری کو یقین ہوجائے کہ عدالتیں چرچل کے دور کی عدالتوں کی طرح کام کر رہی ہیں!

اپنا تبصرہ بھیجیں