پارلیمنٹ میں کیا ہورہا ہے؟

11جون ہے۔بجٹ سیشن کا آغاز ہوچکا ہے۔ پاکستان کے وزیر خزانہ شوکت فیاض ترین قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کررہے ہیں۔اصولاً اپوزیشن کو خاموشی سے تقریر سننا چاہیئے تھی مگر سیٹیاں بجائی جا رہی ہیں، اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے والے (مرداور خواتین)اراکین قومی اسمبلی ممکنہ حدتک گلا پھاڑ کر چیخ رہے ہیں، چلّا رہے ہیں،اورپوری قوت سے، بیشتردونوں ہاتھوں سے (بعض ایک ہاتھ سے) ڈیسک بجا رہے ہیں، دوچار نے ہاتھ سے لکھے ہوئے پلے کارڈ اٹھا رکھے ہیں جن پر حکومت مخالف نعرے درج ہیں۔۔۔۔ 15جون کو اپوزیشن لیڈر شہباز شریف تقریر کر رہے ہیں،سرکاری بینچوں پر بیٹھنے والے صرف ہلڑ بازی نہیں کر رہے،دونوں جانب سے اراکین گالیاں بک رہے ہیں،ایک دوسرے پربجٹ دستاویزات پھینکی جارہی ہیں۔ایک خاتون ایم این اے(سرکاری بینچوں پر) آنکھ پر دستاویز لگنے سے زخمی ہو گئیں، ان کی ساتھی رکن قومی اسمبلی نے میڈیا کو بتایا ان کی آنکھ کا آپریشن ہوا ہے،ڈاکٹر نے آرام کا مشورہ دیا ہے۔342اراکین پر مشتمل پوراہاؤس مصر ہے کہ جو ہوا،درست ہوا، جمہوریت اسی کا نام ہے۔ اسپیکراسد قیصر جب شورشرابا کرانے میں ناکام ہوگئے تو 10منٹ کے لئے اجلاس ملتوی کر دیا۔اپوزیشن سمجھتی ہے کہ یہ طرز عمل اپناکر وہ حکومت کو ٹف ٹائم دے رہی ہے۔ایسے ہی خیالات اور دلائل حکومت کی زبان پر ہیں۔عام آدمی ٹی وی اپنے منتخب نمائندوں کے یہ سب کچھ کرتے دیکھ رہا ہے۔یہ بحث کہ پہلی گالی کس نے، کس کو دی؟ اب وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے۔جو ہونا تھا ہو چکا۔ پورا ایوان کسی جاہل بستی کے بد تمیز اور خود سر افرادکابے قابو ہجوم نظر آرہا تھا۔دکھ کی بات یہ ہے کہ گالم گلوچ خواتین اراکین اسمبلی کی موجودگی میں ہوئی اور پاکستان کے تمام ٹی وی چینلز پر لائیو دکھائی گئی۔شور شرابہ اور گالم گلوچ سیاسی نفسیات کا حصہ بن گیا ہے۔سمجھنے کے لئے مسلم لیگ نون کے سیکرٹرل جنرل احسن اقبال اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے پیش کردہ دلائل پڑھ لئے جائیں،سن لئے جائیں۔۔۔۔احسن اقبال نے اس رویہ کے دفاع میں کہا ہے:”ساری دنیا میں اپوزیشن احتجاج کرتی ہے، حکومت جواب میں وہ سب کچھ نہیں کرتی جو پی ٹی آئی کی حکومت نے کیا۔حکومت صبر اورتحمل سے کام لیتی ہے، ماحول کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتی ہے“۔۔۔۔۔شاہ محمود قریشی نے و ضاحت پیش کی ہے:”اپوزیشن کو بجٹ پر تنقید کا حق حاصل ہے،مہذب طریقے سے اظہار رائے کرے،جو تنقید کرنی ہے ضرور کرے، اپنی بات کریں اور حکومتی مؤقف نہ سنیں یہ مناسب نہیں، یک طرفہ ٹریفک نہیں چلے گی،اپوزیشن ہماری نہیں سنے گی تو ہم بھی ان کی نہیں سنیں گے،اگر عمران خان کو قائد ایوان کی حیثیت میں بولنے کا حق نہیں دیاجائے گا تو پھر اپوزیشن لیڈر کو بھی یہ حق نہیں مل سکتا“۔۔۔۔ فریقین کے دفاعی دلائل میں کتنا وزن ہے اس سے قطع نظریہ دفاعی انداز گفتگو ثابت کرتا ہے کہ دونوں کو اس رویئے پر ندامت نہیں اور یہی پہلو تشویشناک ہے۔اپوزیشن نے جتنی دیر ایوان میں رہو”مسلسل شورمچاؤ“اورجواب سنے بغیر ایوان سے”واک آؤٹ کر دو“ والی پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔اسی کو جمہوریت سمجھ لیا ہے۔اگر مغرب نے یہ طریقہ اختیار کیاہوا ہے تو وہ بھی غلط ہے، اس کی نہ حمایت کی جا سکتی ہے اور نہ ہی اسے پاکستان کی سیاسی اخلاقیات کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔اس کے علاوہ یہ بھی یاد رہے کہ آج بھی ایوان میں جوچاہے بولنے کی اجازت نہیں ہے،غیر پارلیمانی الفاظ حذف کئے جاتے ہیں، اور نامناسب رویہ اختیارکرنے پر رکن اسمبلی کو ایوان سے باہر نکال دیاجاتا ہے۔ اس کی مثا ل پارلیمانی تاریخ کاحصہ ہے۔مفتی محمود اپوزیشن لیڈرتھے اور انہیں ایوان سے باہر نکال دیاگیا تھا، اس عمل کو میڈیا نے ”باہر پھینکوا دینا“لکھا تھا۔یاد رہے یہ منظر قائد اعظم کا پاکستان دولخت ہونے کے بعد موجودہ پاکستا ن کی دستورساز اسمبلی میں دیکھا گیا تھا۔ اس کے سادہ معنی یہ ہوتے ہیں کہ ہمارے سیاست دانوں نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا اور نہ ہی اب سیکھنے کو تیار ہیں۔زمینی حقائق سے بے خبری کا یہ عالم ہے کہ اپوزیشن نے نہ جانے کیا سوچ کر ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی ہوئی ہے۔ کل،جمعہ (18جون)کو، اسی ایوان میں پیش کی جائے گی۔ اس روز ایوان میں اورکوئی کارروائی نہیں ہوگی۔تحریک کی حمایت کے لئے ایک چوتھائی اراکین(86)درکارہوں گے۔اپوزیشن تعداد پوری نہ دکھا سکی تو قرارداد مسترد سمجھی جائے گی۔ڈپٹی اسپیکر کو دفاع کے 15منٹ تقریر کا موقع دیا جائے گا۔تحریک پر ووٹنگ خفیہ رائے شماری سے ہوگی۔جمعہ کون سادور ہے؟جو ہونا ہے سامنے آجائے گا۔اپوزیشن کی آئندہ دو سالہ سیاست(بشمول بجٹ کی منظوری)کے بارے میں سب کچھ کل عوام کوتحریک عدم اعتماد کی کامیابی یا ناکامی کی صورت میں معلوم ہو جائے گا۔مبصرین اور سیاسی تجزیہ کار جون 2021کو پاکستان کے سیاسی اور معاشی مستقبل کے حوالے سے فیصلہ کن دیکھ رہے ہیں۔عالمی بینک اور اے ڈی بی نے اپنے بورڈ کا اجلاس 6مہینے کے لئے مؤخر کر دیا ہے۔یہ رویہ ان کی جانب سے ناراضگی کا لطیف اشارا ہے۔آئی ایم ایف سے مذاکرات جاری ہیں،حکومت نے اپنے لئے خود نیا معاشی ٹریک چنا ہے۔ اس لئے نتائج کی ذمہ بھی اسی کو قبول کرنا ہوگی۔آئی ایم ایف چھ ماہ خاموش یا تماش بین کا کردار ادا کر سکتاہے۔ کامیابی اور ناکامی دونوں کے امکانات یکساں ہیں، کسی ایک کے بارے میں کوئی یقین دہانی فی الحال وزیر خزانہ نہیں کراسکتے۔6ماہ کے عملی نتائج سامنے آنے تک ان کا پیش کردہ بجٹ مفروضوں پر مبنی ہے۔زراعت، صنعت اور دیگر معاشی سرگرمیوں پر نئی حکومتی سہولتوں کے جیسے اثرات مرتب ہوں گے آئی ایم ایف کا رویہ یا رد عمل ویساہی ملے گا۔ اپوزیشن کو چاہیئے تھاکہ بجٹ تجاویز اور ان کے عملی طور پر ممکنہ نتائج کا حقیقت پسندانہ جائزہ پیش کرتی تو یہ افسوسناک مناظر ایوان کے ریکارڈ کاحصہ نہ بنتے۔اپوزیشن یہ بھی ذہن میں رکھے کہ حکومت اور اس کی اتحادی جماعتیں یورپی کلچر کی دلدادہ نہیں، پاکستان میں پلی بڑھی ہیں،ان کا مزاج بھی اتنا ہی گرم اور خشک ہے جتنا نون لیگ اپنا مزاج سمجھتی ہے۔شاہ محمود قریشی نے کوئی ڈپلومیٹک زبان استعمال نہیں کی، صاف اور دو ٹو الفاظ میں کہہ دیا ہے:”یکطرفہ ٹریفک نہیں چلے گی،قائد ایوان کوتقریر نہیں کرنے دی جائے گی تو اپوزیشن لیڈر بھی تقریر نہیں کر سکے گا“۔اب گیند اپوزیشن کے کورٹ میں ہے۔جیسا کھیلے گی اسے حکومت کی جانب سے ویسا ہی جواب ملے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں