کسی کو لاپتہ، دوران حراست قتل کرنا آئین کیخلاف ورزی ہے،ایچ آر سی پی

تربت(نمائندہ انتخاب) تربت سول سوسائٹی اور ایچ آر سی پی نے تمپ میں گہرام نادل کی دوران حراست شہادت کے واقعہ کی انکوائری، ملوث اہلکاروں کے خلاف تحقیقات اور گہرام نادل کے ہمراہ لاپتہ کیے گئے تین نوجوانوں کی باحفاظت فوری بازیاب کا مطالبہ کردیا، تربت پریس کلب میں تربت سول سوسائٹی کے زیر اہتمام پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایچ آر سی پی کے ریجنل کوآرڈی نیٹر پروفیسر غنی پرواز نے کہاکہ 12جون کو تمپ کونشقلات سے چار نوجوانوں گہرام ولد نادل، عبدالستار ولد الہٰی بخش، سہراب ولد رحیم بخش، عبداللہ ولد ماسٹر حسن کو فورسزنے رات چار بجے گھر سے اٹھایا اور 15 جون کو بدترین تشدد کے بعد گہرام ولد نادل کو شہید کرکے ان کی لاش وصول کرنے کیلئے ان کے اہل خانہ کو فون کیا جنہیں ان کے اہل خانہ نے وصول کرنے سے انکار کیا بعد ازاں علاقائی معتبرین اور ان کے ہمسائیوں کو فون کرکے لاش وصول کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا مگر کوئی شخص بشمول خاندان لاش وصول کرنے پر راضی نہ ہوا جسے بعد میں پولیس کے ذریعے زبردستی ورثاء کے حوالے کیا گیا انہوں نے کہا کہ کسی بھی شخص کو بلاوجہ گھر سے اٹھاکر لاپتہ کرنا یا دوران حراست تشدد کرکے قتل کرنا یہ عمل آئین پاکستان کی نہ صرف خلاف ورزی ہے بلکہ اقوام متحدہ، انسانی حقوق کا عالمی چارٹر اور عالمی عدالت انصاف بھی اس کی اجازت نہیں دیتے ہیں، بلوچستان میں 2001ء سے نوجوانوں کو خصوصاً اغواء اور عام لوگوں کو عموماً اغواء کرکے لاپتہ کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا ایک اندازہ کے مطابق ہزاروں بلوچ اس وقت لاپتہ اور ہزاروں کو قتل کرکے مسخ لاش کی صورت پھینکا گیا، پہلے اغواء کرکے لاشیں مسخ کرکے پھینک دئیے جاتے تھے اب ایک نیا سلسلہ شروع کیا گیا ہے جوسراسر زیادتی ہے اس عمل سمیت جبری لاپتہ کرنے کا سلسلہ فوری بند کرنا چاہیے، گوادر سے بھی یاسرحاجی حمید اور دیگر نوجوانوں کو اٹھا لیا گیا ہے جوکہ طالبعلم ہیں، انہوں نے کہا کہ آئین کی مطابق کسی شخص کو وارنٹ نکال کر پولیس یا لیویز گرفتار کرنے کامجاز ہے اور اس شخص کو 24 گھنٹوں کے دوران کھلی عدالت میں پیش کرنے کا پولیس یالیویز پابند ہے مگر یہاں معاملہ اور ہے لوگوں کو رات کی تاریکی میں اٹھایا جاتا ہے اور ماوراء آئین وقانون تشدد کانشانہ بنایا جاتا ہے، انہوں نے کہا کہ فورسزکا کام سرحدوں کی حفاظت کرناہے جبکہ یہاں فورسزکو آبادیوں میں لاکر بسایاگیاہے جو لوگوں کو گرفتار اور تشدد کرکے انہیں اذیت دیتے ہیں، فورسزکو ہرگز یہ اجازت نہیں، سیکیورٹی کے نام پر علاقے میں اپنی ذمہ داریوں سے ہٹ کر غیر انسانی کاموں میں ملوث ہے جس سے وہ سخت بدنام ہے نوجوان طالبعلم حیات مرزا بلوچ کا واقعہ ہو یاپھر امیر مراد کا واقعہ یہ فورسزکے کردار پر داغ ہیں، وفاق اور صوبائی حکومت سے مطالبہ ہے کہ فورسز کو آبادیوں سے نکال کر سرحدوں پر بھیجا جائے کیونکہ کسی بھی قانون میں شہروں کے اندر فوج کو آباد نہیں کیاجاتا، یہ آئین پاکستان کی بھی خلاف ورزی ہے عالمی انسانی حقوق اور اقوام متحدہ سمیت کسی بھی ادارے اور قانون میں اس کی اجازت نہیں ہے، تربت سول سوسائٹی کے کنوینر گلزار دوست نے کہا کہ تمپ سے گہرام ولد نادل کا دوران حراست قتل انسانی المیہ ہے ان کے ساتھ گرفتار دیگر تین نوجوانوں کی زندگیوں کے بارے میں ہمیں شدید تشویش لاحق ہے ہمارا مطالبہ ہے کہ اس واقعہ کی غیر جانبدارانہ تحقیق کرکے گہرام کے ساتھ گرفتار کیے گئے تینون نوجوانوں کو فوراً بازیاب کیا جائے اور کسی بھی شخص کو آئندہ محض شک کی بنیاد پر گرفتار کرکے ان پر تشدد یا قتل کرنے کا طریقہ بند کیا جائے، انہوں نے کہا کہ سیکورٹی فورسز یا فورسزکا کام عوام کے جان و مال کا تحفظ کرنا ہے یہ ان کو آئین نے اختیار دیا ہے لیکن بدقسمتی سے سیکورٹی ادارے آئین کو پاؤں تلے روندھ کر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے مرتکب ہورہے ہیں اور انہیں روکنے والا بھی کوئی نہیں ہے انہوں نے کہا کہ گہرام ولد نادل کے خاندان کو انصاف فراہم کرنے کے لئے ہر ممکن ساتھ دینے کو تیار ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں