پارلیمنٹ ایک ضابطہئ اخلاق بنائے

آج ہر جمہوریت دوست شہری دکھی ہے،اس کی زبان پر یہ جملہ بار بار آ رہا ہے:کاش یہ نوبت نہ آتی، عام آدمی نے الیکٹرانک میڈیا پر اراکین پارلیمنٹ کو،پارلیمنٹ کے معزز فلور پر،ایک دوسرے کو فحش گالی دیتے، ایک دوسرے پر بجٹ دستاویزات اچھالتے، سینیٹائزر کی بوتلیں مارتے اور جوتے پھینکتے دیکھا۔ایسے بدنما مناظر پہلے قومی اسمبلی میں اور پھر بلوچستان اسمبلی میں نظر آئے۔ قومی اسمبلی میں ایک رکن اسمبلی نے(جو ملک کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں)اسپیکر کے قریب پہنچ کر تلخ لہجے میں اپنا مطالبہ پیش کیا اور پھرجوتا اتار کر اسپیکر کے منہ پر مارنے کی دھمکی دی۔ ہمارا میڈیا متصادم فریقین کو صرف مشورہ دے سکتا ہے،یہی سمجھا سکتا ہے کہ تمام اراکین (حکومت میں شامل اور اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے والے) اپنے مقام و مرتبہ کو پہچانیں،سوچیں،کیا انہوں نے گلی گلی جاکر اس کام کے لئے ووٹ مانگے تھے؟ کیا پارلیمنٹ کے اپنے طے شدہ فرائض نہیں جو اراکینِ قومی و صوبائی اسمبلی کوادا کرنے ہیں؟کیا آئین یا صوبائی قوانین میں حکومت کوپابند کیا گیا ہے کہ وہ اپوزیشن کی مشاورت سے بجٹ تیار کرے؟اگر اس بارے میں آئین اور قانون خاموش ہے تو اپوزیشن کو چاہیئے کہ وہ آئین میں ترمیم کرائے، حکومت کو آئینی طور پر پابند بنائے کہ بجٹ اپوزیشن کی مشاورت کے بغیر نہیں پیش کیا جا سکتا۔ جب تک آئین میں مطلوبہ ترمیم نہیں کی جاتی اس وقت تک کوئی حکومت بجٹ سازی کے دوران اپوزیشن سے مشاورت کی پابند نہیں۔ہاں ماضی میں اگراس ضمن میں کوئی مشاورت کی جاتی رہی ہے تویہ اس وقت کی حکومت کا ماورائے آئین رویہ کہلائے گا، اس اقدام کو اپوزیشن کا استحقاق کہنا درست نہیں۔ابھی تک یہ دعویٰ بھی ایک مفروضے سے زیادہ کچھ نہیں کہ اپوزیشن کو احتجاج کا حق حاصل ہے اور جب بھی اپوزیشن احتجاج کرے یا ایوان سے واک آؤٹ کرے،حکومت اسے منانے کی پابند ہے۔یہ روایات اس زمانے کی یادگار ہیں جب عام آدمی کو سیاسی پارٹی کی رکنیت نہیں دی جاتی تھی۔صرف راجوں، مہاراجوں اور نوابین کو یہ اعزاز دیا جاتاتھا۔عوام کو یاد ہے بلوچستان اسمبلی میں ایک وقت ایسا بھی گزرا ہے جب تمام اراکین(ماسوائے ایک)حکومت میں شامل تھے اور سب کی جیب میں (وزیر، مشیر،معاون،یا چیئرمین کمیٹی ہونے کا نوٹیفکیشن)موجود تھا۔مارشل لاء ادوار میں اراکین پارلیمنٹ نے ترقیاتی فنڈزکے ساتھ جیسا چاہا سلوک کیا، کسی سے پوشیدہ نہیں۔ان دنوں وزیر اعلیٰ بلوچستان گنتی کے چند دن کوئٹہ میں نظر آتے تھے،باقی وقت بیرون بلوچستان گزارتے تھے۔ ترقیاتی کام صرف فائلوں میں تکمیل کے مراحل طے کرتے،زمین پر مکمل نظر نہیں آتے تھے۔ لوٹ مارکا بازار گرم تھا، جو جس کے ہاتھ لگا، لے اڑا۔بچہ بچہ جانتا ہے۔پارسائی کے دعوے زبانی کلامی ہیں، سب کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں، دامن داغ دار ہیں، آنکھیں جھکی ہوئی اور چہروں کی رنگت اڑی ہوئی ہے۔عدالتوں میں پوری کوشش ہوتی ہے کہ ان پر فرد جرم عائد نہ ہو سکے۔اچھے وکیل سے لے کر جسٹس ملک قیوم اور جسٹس ارشد ملک تک ہر حربہ استعمال کرتے ہیں۔سپریم کورٹ پر حملے سے تھانہ ماڈل ٹاؤن کی حدود میں قتل عام تک اداروں اور مخالفین کو زیر کرنے کے تمام گر آزمائے جاتے ہیں۔اپوزیشن کے اراکین کو آئین میں یہ استحقاق حاصل نہیں کہ وہ سماجی اور اخلاقی روایات کو پامال کرے،اسمبلی کے گیٹ پر تالا لگا کر حکومتی اراکین کو اسمبلی میں داخل نہ ہونے دے۔ نہ ہی حکومت کو اختیار حاصل ہے جس رکن کو چاہے اسمبلی سے باہر پھینک دے۔اپوزیشن اور حکومت دونوں کے فرائض تحریری شکل میں دستیاب ہیں۔اسمبلی کے رولز آف بزنس پڑھنے کی زحمت کی جائے، سب کچھ مل جائے گا۔یاد رہے گالی دینے، جوتااتار کر اسپیکر کے منہ پر مارنے کی دھمکی دینے اور سینیٹائزر کی بوتل حکومتی رکن اسمبلی کے منہ پر مارنے اور اسے زخمی کرنے کا ا ستحقاق کسی رکن اسمبلی کو حاصل نہیں۔گملہ گرا کر زخمی کرنے کی اجازت کسی کو نہیں دی گئی۔ جو کچھ ہوا شرمناک تھا، نہیں ہونا چاہیئے تھا۔اگر اپوزیشن صدق دل اور اپنے علم و یقین کی حد تک سمجھتی ہے کہ موجودہ حکومت عوام کی منتخب کردہ نہیں، کسی غیر مجاز ادارے کی مسلط کردہ ہے تو اسے پہلے روز ہی، پہلے ہفتے ہی یا جتنی جلدی ممکن تھا، الیکشن کمیشن اور عدلیہ سمیت تمام متعلقہ اداروں سے رجوع کرتی۔ اپنے الزامات اور دعوے کو شواہد کی مدد سے ثابت کرتی۔مگر اپوزیشن نے ایسا نہیں کیا، تین سال کے دوران صرف نعرے بازی کرتی رہی۔حکومت ہٹانے کادوسرا آئینی طریقہ اپوزیشن کے پاس موجود ہے، حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائے، حکومت اکثریت کا اعتماد ثابت نہ کرنے کی صورت میں گھر چلی جائے گی۔ اپوزیشن جو کرسکتی تھی اس نے بھرپور انداز میں کیا۔ تمام سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کیا،پی ڈی ایم نامی اتحاد تشکیل دیا۔چاروں صوبوں میں جلسے کئے، عوام کو حکومت کے جعلی ہونے کے بارے میں آگاہ کیا، نااہل ہونے، ناتجربہ کار ہونے سمیت تمام خامیاں اجاگر کیں،مگرعوام نے پی ڈی ایم کامؤقف تسلیم نہیں کیا،پی ڈی ایم حکومت کو گھر بھیجنے میں بری طرح ناکام رہی، بلکہ اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکی۔ اپوزیشن زمینی حقائق سے آنکھیں نہ چرائے۔ ایسی خواہشات کی تعداد ہزاروں میں ہو سکتی ہے کہ ہر خواہش پہ دم نکلے؛ آخر میں یہی کہنا پڑتا ہے:بہت نکلے مرے ارمان مگر پھربھی کم نکلے۔ سیاست میں کامیابی کی طے شدہ شرائط ہیں، مسلمہ اصول ہیں۔ پورے نہ کئے جائیں تو کامیابی نہیں ملتی۔چلیں، ایک لمحے کے لئے یہ مفروضہ مان لیا جائے کہ موجودہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں جعلی ہیں، نااہل ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اہل اور باصلاحیت اپوزیشن تجربہ کار ہونے کے باوجود اسے گھر بھیجنے میں اب تک،(تین سال گزرنے کے بعد بھی) کامیاب کیوں نہیں ہوسکی؟ اس دوران وہ حکومت کی اتحادی جماعتوں کے ناراض ہونے کا انتظار کرتی رہی۔ اپوزیشن کے پاس کوئی ٹھوس لائحہ عمل نہیں ہے بجٹ سیشن میں ایسی تجاویز پیش نہیں کرسکی جنہیں دیکھ کر عوام حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکل آتے۔اپوزیشن اپنی حکمت عملی پر غور کرے، سوچے اس کا گزشتہ سال والا بیانیہ عوامی پذیرائی کیوں نہ حاصل کر سکا؟کیا حالیہ بجٹ اپوزیشن اپنی خواہش کے مطابق منظور ہونے سے روک سکے گی؟کیا ان خامیوں کو دور کرلیا گیاہے جو گزشتہ سال ناکامی کا سبب بنی تھیں؟واضح رہے عوام صرف نعرے بازی کی بنیاد پر اپنے گھروں سے نہیں نکلیں گے۔بجٹ سازی میں ایسا مصالحہ استعمال کیا گیا ہے جو کم از کم تین مہینے تک عوام کوایسی متبادل سرگرمیوں میں مصروف کر دے گاکہ وہ جلسوں میں شریک نہ ہوں۔ اپوزیشن اس پہلوکو بھی دیکھے، حکومت ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھی ہوئی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں