وزیر اعظم صاحب اپنا بیانیہ درست کیجئے!

وزیراعظم عمران خان نے امریکی صحافی کو پاکستان میں ریپ کے بڑھتے ہوئے واقعات کے حوالے سے ایک بار پھر اپنا پرانا مؤقف دہرایاہے کہ اس کی بڑی وجہ خواتین کا مختصر لباس ہے۔یہ جواب نامکمل ہونے کے علاوہ مظلوم خواتین کی دل آزاری اور مجرموں کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہے۔ آج خواتین پاکستان سمیت دنیا بھر میں زندگی کے ہر شعبے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں،اراکین اسمبلی (قومی و صوبائی)کی حیثیت سے قانون سازی میں حصہ لے رہی ہیں۔قصور میں ننھی زینب کیا مختصر لباس میں گلیوں میں گھوم رہی تھی؟ جسے جنسی درندے نے وحشیانہ انداز میں نہ صرف زیادتی کا نشانہ بنایا بلکہ قتل کرکے اس کی لاش کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دی تھی۔ ملک کے ہر حصے میں معصوم بچیوں کے ساتھ بہیمانہ سلوک کیا جارہا ہے۔ پہلے ریپ کے کیسز رپورٹ ہونے کی شرح بہت کم تھی، اس لئے کہ بیگناہی کا ثبوت متأثرہ خاتون کو دینا پڑتا تھا،ڈی این اے جیسی اہم گواہی کاابھی سراغ نہیں لگا تھا۔مجرم کے وکیل حد درجہ تکلیف دہ سوالات بھری عدالت میں پوچھتے تھے۔ تھانوں میں مقدمات درج کرنے سے انکار کیا جاتا تھا۔مدرسوں میں والدین بچوں کو دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھیجتے ہیں۔مگر وہاں بھی درندہ صفت قاری اور مفتی انہیں اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں۔ والدین کی اکثریت خاموشی اختیار کرتی اور پردہ پوشی سے کام لیتی ہے۔مفتی عزیز الرحمٰن اور اس کے تین بیٹے ایک مظلوم بچے کی جرأت کے سبب پولیس کسٹڈی میں ہیں بلکہ اعتراف جرم بھی کر چکے ہیں۔آئی جی پنجاب نے انہیں قانونی سزا دلوانے کا یقین دلایا ہے۔اس سے پہلے مانسہرہ کے ایک مدرسے میں ایک ”قاری“ (قرآن کی تعلیم دینے والے استاد)نے بچے کو زیادتی کا نشانہ بنایا، مقدمہ درج ہوا تو مفتی کفایت اللہ نے اسے پولیس کے سپرد کرنے کی بجائے اسے گرفتاری سے بچانے کے لئے اپنے گھر میں پناہ دی، چنانچہ اعانت مجرمانہ کے کیس میں وہ بھی پولیس کو مطلوب ہیں۔پولیس انہیں گرفتار کرنے دوسرے ضلع پہنچی تو علاقے کے معتبرین نے جرگہ کی صورت میں یقین دہانی کرائی کہ مذکورہ مفتی خود پیش ہو جائیں گے۔کراچی کی ایک نجی یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر کو رواں ماہ قید اور جرمانے کی سزا سنائی گئی ہے۔ایک اور مفتی کی ویڈیو ٹی وی چینلز پر سب نے دیکھی ہے جس میں ایک نوجوان لڑکی ان کے منہ پر تھپڑ مار رہی ہے،اور وہ انتہائی بے شرمی سے تھپڑ کھا رہے ہیں یہ واقعات آج کل اس لئے منظر عام پر آ رہے ہیں کہ ان کی ویڈیو بناکر وائرل کرنے کی سہولت عام شہریوں کی دسترس میں ہے۔ویڈیو دیکھ کر اقرار جرم کے سوا کوئی آپشن نہیں بچتا۔وزیر اعظم عمران خان انتہائی بلند منصب پر فائز ہیں، انہیں ایسے نازک معاملات میں اپنی رائے دیتے وقت محتاط رہنا چاہیئے۔قرآن میں (سورۃ النور آیت30)میں مرد مومنین کو حکم دیا گیا ہے:”مرد مومنین سے کہہ دو،”اپنی نظریں نیچی رکھیں اور شرمگاہوں (عصمت) کی حفاظت کریں،یہ ان کے لئے (اخلاقی) پاکیزگی ہے،یقینا اَللہ باخبر ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں“۔۔۔۔ مردوں کو حکم دینے کے بعد سورۃ النور آیت31میں مومن عورتوں کو حکم دیا ہے:۔۔۔۔”مومن عورتوں سے بھی کہہ دو،اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں (عصمت) کی حفاظت کریں اور اپنی زینت ظاہر نہ ہونے دیں،ماسوائے چہرے اور ہاتھوں کے،اور اپنے سینے پر چادر ڈال لیاکریں“۔یہاں توجہ فرمائیں؛مردوں کو پہلے حکم دینے میں حکمت ہے۔مردنگاہ نیچی رکھنے کے پابند ہیں، نگاہ اٹھانے کی اجازت نہیں ہے۔جنسی درندگی تو بہت بڑا جرم ہے۔قتل کا قصاص ہر مومن پر فرض ہے(سورۃ البقرۃ آیت178، 179اور سورۃ المائدہ آیت45)۔قرآنی تعلیمات سے واقفیت ہر مومن اور مومنہ پر فرض ہے،ریاست قرآنی تادیبی قوانین پر عمل کرائے۔ اَللہ نے (سورۃالنساء آیت43میں)ایسی حالت میں صلوٰۃ کے قریب جانے سے منع کیا ہے جب صلوٰۃ ادا کرنے والے کو یہ علم نہ ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے؟ کیا پڑھ رہا ہئے؟۔مدارس میں بغیر سمجھے صلوٰۃ ادا کرائی جاتی ہے، اصلاح کی جائے۔علاوہ ازیں معاشرے میں بے راہ روی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ایک ہی کمرے میں بچے اور والدین،بلکہ ان کے شادی شدہ بچے بھی زندگی گزارتے ہیں، پرورش کا یہ انداز بھی اخلاقی پستی کی ایک بڑی وجہ ہے۔دینی مدارس میں اساتذہ کو بچوں کے ساتھ بدفعلی کرنیوالے اساتذہ کی اکثریت ایسے ہی ایک کمرے کے گھروں میں پلی بڑھی ہے، اور وہ خود بھی بچپن میں اپنے اساتذہ کی جنسی تسکین کا سبب بنے ہیں۔ ریاست اپنے شہریوں کو مناسب رہائشی مکان فراہم کرے۔ان مدارس میں لاکھوں بچے پڑھتے ہیں،بھاری اکثریت غریب گھرانوں کے بچے ہیں۔ان کے والدین دو وقت کی روٹی نہیں کھلا سکتے، تعلیم کے اخراجات کیسے پورے کریں گے۔صابرشاہ جیسے واٹس ایپ رکھنے والے بچوں کی تعداد بہت کم ہے۔اسی طرح موٹر وے پر اپنی کار میں بچوں کے ساتھ جانے والی خاتون کو قریبی تھانے کی پولیس نے اطلاع ملنے پر ڈاکوؤں اور جنسی درندوں کے حوالے کیا تھا ورنہ وہ جاتے وقت لوٹی ہوئی رقم سے پیٹرول کے لئے ہزار روپے گاڑی میں رکھ کر نہ جاتے۔وزیر اعظم صاحب پوچھیں کیا متعلقہ تھانے میں ڈیوٹی پر موجود پولیس افسران اور اہلکاروں کو اس جرم کی سزا دی گئی؟یہ بھی یاد رہے ڈاکوؤں اور مجرموں کی سرپرستی کی جاتی ہے تب وہ معاشرے کے لئے ناسور بنتے ہیں۔پولیس کو قانون کا پابند اور فر ض شناس بنایا جائے۔مجرموں کے سرپرستوں کو سزا دی جائے۔وزیر اعظم خود کہتے ہیں اور درست کہتے ہیں؛ ان کی زندگی کا بڑاحصہ برطانیہ میں گزرا ہے، وہ وہاں کے معاشرے کی نفسیات دوسروں سے بہتر جانتے ہیں۔لیکن جب وہ پاکستان میں معصوم بچوں اور بچیوں کے ساتھ جنسی درندگی اور سفاکانہ قتل کی وارداتوں میں اضافے پر پوچھے گئے سوال کے جواب میں اس کی وجہ بار بار خواتین کے مختصر لباس کو قرار دیتے ہیں توان کا دیا گیا جواب یکطرفہ، ادھورا،اور مردوں کے حاکمانہ معاشرے کی ترجمانی کرتا ہے۔ بنیادی اسباب سے جڑا، معاشرتی نفسیات کی بھرپور عکاسی نہیں کرتا۔بلوچستان کی ایک سرکاری یونیورسٹی کے عیاش مگر(بااثر) عہدیداراور دیگر ملزموں کو شرمناک جرائم کی قرارواقعی سزانہیں دی گئی تھی؟ اوپر والے بچا کر لے گئے۔وزیر اعظم صاحب!جب تک شہری ایک کمرے والے مکانوں میں پرورش پائیں گے، جنسی درندے ہر جگہ نظر آئیں گے،معاشرہ اس لعنت سے نجات حاصل نہیں کرسکتا۔کم سِن بچوں، بچیوں، راہ چلتی خواتین کو سواری دینے کا بہانہ کرکے لے جانے والوں اورگھروں میں گھس کر ڈکیتی کے ساتھماؤں اور بیٹیوں کو اہل خانہ کی موجودگی میں گن پوائنٹ پراجتماعی ریپ جیسے جرائم پر ڈاکوؤں کوفوری سزا دینے کی بجائے وزیر اعظم کی جانب سے مختصر لباس کاجواز پیش کرنا تکلیف دہ ہے۔ وزیر اعظم اس بیماری کے اصل اسباب و علل کی فہرست بنائیں،جامع جواب دیں، صرف مختصر لباس والے ریمارکس تک محدود نہ رہیں۔جامع جواب کے ساتھ خواتین کی دل آزاری پر معذرت بھی کرلیں تو اس کے اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں