جعلی لائسنس والے 82پائلٹس

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ہوابازی نے جعلی لائسنس رکھنے والے82پائلٹس کے نام پبلک کرنے کی ہدایت کی ہے،اس کے علاوہ پی آئی اے کے تمام پائلٹس اور کراچی طیارہ حادثے کے پائلٹ کے لائسنس کی تمام تفصیلات بھی طلب کر لی ہیں۔متلقہ پائلٹس کے نام پبلک کرنے کی ضرورت تھی، اس لئے کہ خاموشی اختیار کرنے کافائدہ اٹھا کر ان جعلسازوں کے لئے نہ صرف کسی ایئرلائن میں ملازمت حاصل کرنے کے امکانات موجود رہتے بلکہ یہ پائلٹ انسانی جانوں کے لئے مستقل خطرہ بنے رہیں گے۔ ان کے نام پبلک کئے جانے کے نتیجے میں تمام ایئر لائنز باخبر ہو جائیں گی اور جعلی لائسنس رکھنے والوں کی فہرست ویب سائٹ پر اپ لوڈ کردی جائے تاکہ جو چاہے، جب چاہے دیکھ لے۔یہ توتصویر کا ایک رخ ہے۔سوال یہ ہے کہ جعلی لائسنس جاری کرنے والوں کے نام کیوں پبلک نہیں کئے جا رہے؟ حالانکہ وہ اصل مجرم ہیں، قیمتی انسانی جانیں تلف ہونے کے جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ کراچی میں حادثہ کا شکار ہونے والے بد قسمت طیارے کے پائلٹ کے لائسنس کی انہی دنوں چھان بین کی جانی چاہیئے تھی۔ہلکی سی آوز سنی تو گئی تھی مگر بعد میں شاید اس طرف سے نظریں اتفاقیہ ہٹ گئیں یا دانستہ ہٹا لی گئی تھیں۔کیوں کہ پائلٹس ایسوسی ایشن کی جانب سے ایک ”کوڈ آف کنڈکٹ“ کی آڑ میں پائلٹ کی غلطی پر سے توجہ ہٹانے کے لئے ایک نئی بحث شروع کر دی گئی تھی۔ سارا ملبہ کنٹرول ٹاور کے سر ڈالنے کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا تھا۔جن سیاسی پارٹیوں کے دور میں جعلی لائسنس جاری کئے تھے اور انہیں پی آئی اے میں ملازمت پر رکھا گیا تھا وہ بھی وزیر ہوا بازی کو مطعون کرنے لگے تھے کہ انہوں نے جعلی لائسنس کا مسئلہ اٹھا کر ملک کو دنیا بھر میں بدنام کیا ہے اورپی آئی اے پر پابندی لگوا دی ہے۔بظاہر ایسا ہی نظر آتا تھا،لیکن 82جعلی لائسنس سامنے آنے پر یہ شور شرابا بند ہو گیا۔ضروری ہے کہ پائلٹس کو جعلی لائسنس دینے والوں کے نام بھی اس فہرست کے ساتھ پبلک کئے جائیں۔نیز یہ بھی بتایا جائے کہ ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی کی گئی یاان کے طاقتور سرپرستوں نے انہیں ہر قسم کی تادیبی کارروائی سے بچا لیا ہے۔نیب سے پلی باگین کرنے والے افسران کی بڑی تعداد کے بارے میں میڈیا میں ایسی اطلاعات ایک سے زائد بار چھپ چکی ہیں کہ وہ نہ صرف اپنی پہلے والی پوسٹ پر بحال ہوئے بلکہ انہیں ترقی بھی دی جاتی رہی ہے۔بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں سے 8لاکھ سرکاری افسران کی ہیرا پھیری کی داستان بھی ابھی ادھوری ہے،لگتا ہے انہیں تا حال سزا نہیں دی گئی ورنہ میڈیا میں طوفان آجاتا، 8لاکھ فراڈیئے سامنے لائے جاتے توہفتوں ہر شخص کی زبان پر یہ قصہ ضرورہوتا۔محکمہ ہوابازی میں اتنی بڑی جعلسازی کے محرکات کی چھان بین بھی ہونی چاہیئے تھی۔کوئی محکمہ اس قدر پستی کا نمونہ نہیں بن سکتا جب تک اعلیٰ حکام اس میں حصہ دار نہ ہوں اور ان کرپٹ افسران کی پشت پناہی کسی اعلیٰ مقام سے نہ کی جائے۔ عام آدمی سوچ بھی نہیں سکتا کہ ہوائی جہاز اڑانے کا لائسنس بھی جعلی ہوسکتا ہے، مگر یہاں 82جعلی لائسنس جاری ہونے کی تصدیق ہورہی ہے۔وزیر ہوا بازی نے دیانت داری سے سارا معاملہ دنیا اورقوم کے سامنے رکھ دیا۔اس بڑے پیمانے پر کی جانے والی جعلسازی کے تمام کرداروں کو سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہیئے تھا،سینیٹ کی قائمہ کمیٹی تمام پہلو سامنے رکھے،صرف نام پبلک ہونا کافی نہیں، انہیں دی جانے والی سزا کی تفصیلات بھی پبلک کی جائیں۔اس کے علاوہ ماڈل ٹاؤن تھانہ(لاہور) کی حدود میں پولیس نے میڈیا کیموجودگی میں گلو بٹ نامی بدمعاش کی قیادت میں جو خونی ہولی کھیلی تھی اس کے مجرموں کو بھی تاحال کوئی سزا نہیں دی گئی، جبکہ امریکہ میں ایک سفید فام پولیس افسر نے ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں ایک سیاہ فام ملزم کی گردن پر گھٹنا رکھ کر اتنا دباؤ ڈالا تھا کہ وہ سانس گھٹنے سے مر گیا،اس پولیس افسر کو صدر جوبائیڈن کے پہلے سال ہی 22سال6ماہ قید کی سزا سنائی جا چکی ہے۔نئے پاکستان کی داعی حکومت اپنے اقتدار کے تین سال پورے کرنے کے بعد بھی اس تکلیف دہ اور افسوسناک مقدمے کو انجام تک نہیں پہنچا سکی۔مذکورہ تھانے کی حدود میں 14پاکستانی شہری پولیس نے قتل کئے، ان میں خواتین بھی شامل تھیں۔ 80کے لگ بھگ شدید زخمی ہوئے جن میں اکثریت زندگی بھرکے لئے معذور بھی ہوئے تھے۔حکومت کی ذمہ داری ہے کہ بیگناہ اور نہتے شہریوں کو انصاف دلائے۔ملزموں کو کیفر کردار پر پہنچائے۔معاشرے کی تمام پرتیں خود کو قانون سے ماوراء سمجھنے کی عادی ہو گئی ہیں، اس کا علاج ہونا چاہیئے، پہلے ہی کافی تاخیر ہو چکی ہے، مزید تاخیر درست نہیں بلکہ مجرموں کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہوگی۔حکومت کا یہ عذر اپنی جگہ بجا سہی کہ اس کے پاس قانونسازی کے لئے مطلوبہ تعداد نہیں، لیکن پرانے قوانین اس قدر بے جان بھی نہیں کہ ایک تھانے کے خودسر افسران اور اہلکاروں کو ان کی برسرعام قانون شکنی سزا نہ دلوائی جا سکے۔حکومت اس مقدمے کی تفصیلات سے واقف ہے،موجودہ حکومت کو علم ہے کہ یہ کارروائی اس وقت کی حکومت نے اپنے ایک سیاسی حریف کو خاموش کرانے کے لئے کی تھی۔مقتولین اور شدید زخمی ہونے والوں کے ورثاء اپنی بساط سے بڑھ کر اس مقدمے کی پیروی کرتے رہے ہیں،مگر ملزمان کے سرپرست ان کی راہ میں حائل ہیں۔یاد رہے قتل کی یہ واردات 2013میں کئی گھنٹے جاری رہی، اس کی ریکارڈنگ تمام ٹی وی چینلز کے پاس محفوظ ہے،کروڑوں پاکستانی شہریوں کے حافظے میں اب تک تازہ ہے۔حکومت مقدمے کی سماعت رکوانے کی کوششوں کا زالہ کرے، اس کے سوا کسی اقدام کی ضرورت نہیں۔قانون اپنا راستہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی تفصیلات مانگ رہی ہے اس کے معنے یہی ہوتے ہیں کہ جعلی لائسنس رکھنے اور استعمال کرنے والے پائلٹس بھی ابھی تک بھرپور سزا سے بچے ہوئے ہیں۔ان کا معاملہ بھی سنجیدگی سے پایہئ تکمیل تک پہنچایا جائے۔ قانون اپنی موجودگی کا احساس دلائے۔ پیشرفت ابھی تک سست روی کا شکار ہے۔سست روی دور نہ کی جائے تو ڈھیل اور ڈیل کا تأثر ذہنوں میں جگہ بنالیتا ہے، اس سے بچنے کی ضرورت ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں