عوام مشکل وقت میں زمہ داری کا مظاہرہ کریں

اداریہ
یہ زمینی حقیقت ہے کہ کورونا وائرس نے پوری دنیا کواپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے اور پاکستان اسی دنیا کا رقبے اور آبادی کے لحاظ سے ایک چھوٹا سا حصہ ہے،جو حکمرانوں کی عاقبت نااندیشی،اقرباء پروری، اور خود غرضی جیسے امراض کا شکار ہونے کے باعث ملکی وسائل سے عالمی تقاضوں کے مطابق کم سے کم درکار زر مبادلہ کمانے کی صلاحیت سے بھی محروم ہے اس کی معیشت کا انحصاربیرونِ پاکستان مقیم پاکستانیوں کے بھیجے ہوئے 20ارب ڈالر پر ہے۔کسی حکمران نے یہ نہیں سوچا کہ اگر کسی وقت کسی وجہ سے بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو واپس آنا پڑا تو ملکی معیشت کی سانس کیسے بحال رکھی جائے گی۔ جیسا کہ آج کورونا وائرس کے نمودار ہونے کے باعث ساری دنیا مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور مرنیوالوں کی گنتی میں مصروف ہے۔روزانہ کی بنیادوں پر اعداوشمار بتائے جارہے ہیں۔امریکا جیسا جو کل تک نمبر ون عالمی طاقت کی حیثیت رکھتا تھا آج کورونا وائرس کی زد میں ہے اور بے بسی کا نمونہ بنا ہوا ہے،اٹلی کو پیچھے چھوڑ کر سر فہرست پوزیشن پر پہنچ گیا ہے۔لیکن ماہرین معیشت سمجھتے ہیں کہ وہ کرونا وائرس سے پہنچنے والے بھاری نقصان کے باوجود نئے حالات کا مقابلہ کرنے کی سکت رکھتا ہے،(ممکن ہے یہ اندازے بھی اسی طرح بے جان ثابت ہو ں جیسے صحت کے حوالے سے سنائی جانے والی تمام کہانیاں خواب ثابت ہوئیں)۔اگر خدا نخواستہ پاکستان میں کورونا بے قابو ہوگیا تو پاکستان کا کیا بنے گا؟وزیر اعظم عمران خان اس خدشے کا متعدد بار اظہار کر چکے ہیں۔زرِ مبادلہ کا بڑا ذریعہ عرب ممالک تھے انہوں نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ان کی معاشی حالت بھی ہمارے جیسی ہوائی ہے۔حج اور عمرہ سے ہونے والی کمائی بند ہو چکی ہے،اب کمائی کا واحد ذریعہ پیٹرول رہ گیا ہے اس کی طلب بھی کروناوائرس کے باعث دنیا بھر میں معاشی سرگرمیاں ساکت ہونے کے سبب بہت کم ہو گئی ہے اور طلب میں کمی کے نتیجے میں اس کی قیمت بھی بہت نیچے آ چکی ہے۔عرب ممالک کی معیشت کو اس سے بہت بڑا دھچکا لگے گا۔ پیٹرول کے ذخائر بھی تیزی سے ختم ہو رہے ہیں جب تک پیٹرول ہے بیچ کر اپنے اخراجات پورے کرتے رہیں گے اس کے بعد یہ خود معاشی مسائل کا شکار ہوں گے۔آمدنی کے دیگر ذرائع کے بارے میں انہوں نے بھی پاکستانی حکمرانوں کی طرح کبھی نہیں سوچا۔ماضی قریب میں پاکستان کو نادہندگی کا خطرہ لاحق ہو گیاتھا،دوست ممالک سے منت سماجت کرکے عالمی مالیاتی اداروں سے لئے گئے قرض اور اس پر واجب الادا سود کی قسطیں ادا کرنے کے لئے جو بھاگ دوڑ کی عام آدمی کو یاد ہونی چاہیے۔ کوروناوائرس نے پاکستان کی معاشی شہ رگ سے کم از کم 10ارب ڈالرکی ترسیل زر کورونا کی وجہ سے ختم ہو جائے گی، ملک میں بھی بیروزگاری میں اضافہ ہوگا۔یہی کیفیت دیگر ممالک میں ملے گی۔کرونا نے پرانے سیاسی، سماجی اور معاشی نظام کا کھوکھلا پن بے نقاب کر دیا ہے۔چنانچہ کرونا کی واپسی کے بعد ساری دنیا کے حکمران معیشت دان اورپالیسی ساز سر جوڑ کر بیٹھیں گے اور تباہ شدہ عالمی معیشت کے تانے بانے از سرِ نو جوڑ کر نئے معاشی رشتے تشکیل دیں گے کھلی لوٹ پر قائم نظام کورونا کھا جائے گا۔ایک دوسرے کا گلا دبا کر وسائل کی لوٹ مار جاری نہیں رہ سکے گی۔لیکن یہ تبدیلی فوراً نہیں رونما ہوگی، اس میں کچھ وقت لگے گا یہ وقت آسان نہیں ہوگا،اسے آسان بنانے کے لئے عوام کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا آنے والے ہفتے اگر احتیاط کے ساتھ گزار دیئے تو مشکلات پر قابو پانا ممکن ہو سکے گا۔ حکومت اس دوران معاشی سرگرمیوں کی مرحلہ وار بحالی کے لئے لاک ڈاؤن میں نرمی کا اعلان کرتی ہے تب بھی احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کرنا ہے۔یہ با ت ہر پاکستانی کو یاد رہے کہ کورونا وائرس کا ایک متأثرہ شخص پورے ملک کو دوبارہ بیماروں کے ہجوم میں تبدیل کرنے کے لئے کافی ہے۔یہ بھی یاد رہے کہ بعض اوقات متأثرہ شخص کو بھی علم نہیں ہوتا کہ وہ کتنی خطرناک شے کو اٹھائے گھوم رہا ہے صوبہ سندھ کے وزیر تعلیم ایسی ہی ایک مثال ہیں۔ان کا ٹیسٹ دو مرتبہ مثبت آیا جبکہ ان میں نزلہ، زکام اور کھانسی جیسی کوئی علامت موجود نہیں تھی۔ متأثرہ شخص سے ہاتھ ملانا اور گلے ملنا ہی کافی ہے باقی سارا کام کورونا وائرس خود کرتا ہے۔ معاشرے کو کوروناسے محفوظ رکھنا ہر پاکستانی کی ذمہ داری ہے۔ذرا سی غفلت سب کچھ ڈبو سکتی ہے۔ ابھی تک ایسے ناسمجھ لوگ موجود ہیں جو قرنطینہ سے فرار ہو رہے ہیں انہیں دوسرے شہروں سے گرفتار کرکے لایا جاتا ہے۔ایسی جاہلانہ حرکات بند کرنا ہوں گی۔ معروف سماجی کارکن انصار برنی کا کہنا ہے:۔”بد احتیاطی کے نتیجے میں میں کورونا وائرس کا شکار ہوتا ہوں اور اس کاعلاج نہیں کرتاتو میں خودکشی کروں گااور اگر میری وجہ سے کوئی دوسرا شخص کورونا کا شکار ہو کر موت کے منہ میں جاتا ہے تو میں خود کو قاتل سمجھوں گا“، یہ نکتہ ہر پاکستانی سمجھ لے تو اس وبا سے بچا جا سکتا ہے ورنہ تباہی کے لئے تیار رہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں