پاکستان مزید افغان مہاجرین کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا،عمران خان

اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان مزید افغان مہاجرین کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ افغانستان میں سول وار ہوئی تو یہ بہت بھیانک ہو گی۔وزیر اعظم نے غیر ملکی نشریاتی ادارے کو دیئے گئے انٹرویو میں افغانستان سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے کہا کہ افغانستان میں سول وار ہوتی ہے تو یہ بہت بھیانک ہو گی جبکہ افغانستان کا کوئی فوجی حل نہیں اور سیاسی تصفیہ ہی مسئلہ افغانستان کا حل ہے۔ پاکستان مزید افغان مہاجرین کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان مسئلے کا فوجی حل ڈھونڈتا رہا اور امریکہ افغانستان کا فوجی حل نکالنے میں ناکام رہا۔ نائن الیون کے بعد امریکہ کا ساتھ دیا تو پاکستان میں خودکش حملے بڑھ گئے۔وزیر اعظم نے کہا کہ امریکہ اور نیٹو مذاکرات کی صلاحیت کھو چکے ہیں جبکہ اب طالبان افغانستان میں پیش قدمی کر رہے ہیں لیکن پاکستان افغانستان میں امن کے لیے سہولت کاری کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں ایسی حکومت ہونی چاہیے جو تمام فریقین کے لیے قابل قبول ہو اور اگر انتخابات میں تاخیر ہوتی تو طالبان بھی اس کا حصہ بن سکتے تھے۔ اشرف غنی نے صدر بننے کے بعد طالبان سے مذاکرات نہیں کیے۔عمران خان نے کہا کہ امریکہ کو اڈے دینے سے پاکستان دہشت گردی کا نشانہ بنے گا جبکہ طالبان خود کو افغانستان میں فاتح سمجھ رہے ہیں۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ سے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکی امداد ہمارے نقصان سے بہت کم ہے کیونکہ دہشت گردی کے خلاف امریکہ کا ساتھ دینے سے ہمارا 150 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 70 ہزار جانیں دیں۔

وزیر اعظم نے کہا کہ جہادی بھیجنے سے متعلق افغانستان ثبوت پیش نہیں کرتا۔ طالبان کو محفوظ ٹھکانے دینے کے ثبوت کہاں ہیں؟ اور افغانستان میں ناکامی کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دیا جاتا رہا لیکن ہم امن کے شراکت دار ہیں کسی تنازع کا حصہ نہیں بنیں گے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں حالات خراب ہوئے تو اس کا اثر پاکستان پر پڑے گا اور اگر خانہ جنگی ہوئی تو افغان مہاجرین پاکستان کا رخ کریں گے لیکن پاکستان اب مزید مہاجرین کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا اور ہم عرصہ سے کہہ رہے ہیں کہ افغان مہاجرین کو واپس بھجوایا جائے۔عمران خان نے کہا کہ میں نے افغانستان کے فوجی حل کی مخالفت کی اور مجھے اس بیان پر امریکہ مخالف اور طالبان کا حمایتی سمجھا گیا۔ نائن الیون میں کوئی پاکستانی ملوث نہیں تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں