خواتین وارثوں کے نام شامل ہونے تک سیٹلمنٹ کا عمل نہ کرنے کا حکم،جائیداد سے محروم کرنے پر انتقال کا عمل کا لعدم ہوگا،بلوچستان ہائی کورٹ

کو ئٹہ (اسٹاف رپورٹر)چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ جسٹس جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس جسٹس محمد کامران خان ملاخیل پر مشتمل بینچ نے خواتین کو حق وراثت اور صوبے میں جاری سیٹلمنٹ کے عمل میں نظر انداز و محروم رکھنے سے متعلق ایڈوکیٹ محمد ساجد ترین کی جانب سے دائر پٹیشن کا تفصیلی فیصلہ جا ری کر تے ہو ئے ریمارکس دئیے ہیں کہ ہم اکیسویں صدی کا حصہ اور تعلیم یافتہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی تقریبا ہر فرد نے خواتین شیئر ہولڈرز کو ان کے حق وراثت سے محروم رکھنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے اب وقت آگیا ہے کہ ہم ہر فرد کے حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے اس عمل کی حوصلہ شکنی کریں اور اسے روکیں جو بحث خواتین کے حق وراثت پر عدالت عالیہ کے سامنے ہوئی ہے معزز عدالت اس کی روشنی میں پٹیشن کو قبول کرتے ہوئے سرکاری جواب دہندگان کو درج ذیل شرائط و ضوابط کا حکم دیتی ہے۔1 -خواتین کے حقوق کا تحفظ قرآن مجید میں کیا گیا ہے جس سے انکار کسی صورت نہیں کیا جاسکتا لہذا خواتین اپنے متوفی کی میراث میں حقدار ہیں۔-2وراثت پہلے تمام شیئر ہولڈرز بشمول خواتین کے نام منتقل کی جائے اس کے بعد انتقال کی کاروائی کی جائے گی اور اگر کوئی بھی جائیداد خواتین شیئر ہولڈرز کا نام چھپا یا نکال کر منتقل کی گئی تو انتقال کا سارا عمل کا لعدم ہو جائے گا اور سول دائرہ کار سے وابستہ عدالت کو اپروچ کیے بغیر ذمہ دار فرد کا یہ سارا عمل پلٹا دیا جائے۔3 -کسی بھی خاتون حصہ دار کو اس کے حق سے دستبرداری نامہ/ تحفے،دلہن کا تحفہ۔ نگہداشت الاونس کسی مغلوط معاوضے میں کیش کی ادائیگی،جبر یا کسی بھی ذریعے سے چاہے وہ کتنا بڑا کام کیوں نہ ہو،کے نام پر اس کے متوفی مورث کی جائیداد سے محروم نہیں کیا جاسکتا اگر ان وجوہات یا کسی بھی طرح خاتون وارث کو میراث سے محروم کیا گیا تو انتقال کا وہ سارا عمل کالعدم ہو جائے گا. -4صوبہ بھر میں کہیں بھی سیٹلمنٹ کا عمل اس وقت تک نہیں کیا جائے گا جب تک یہ یقین دہانی نہ ہو جائے کہ خاتون وارثوں کے نام اس میں شامل کر لیے گئے ہیں اور اگر کسی خاندان میں کوئی خاتون نہیں ہے تو ریونیو حکام متعلقہ تفصیلات میں خاص طور پر اس کا ذکر کریں گے۔-5سیکریٹری/ سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو اس ضمن میں یہ بات نہ صرف یقینی بنائیں گے بلکہ اپنے ماتحت ریونیو /سیٹلمنٹ اہل کاران کو بھی اس کی ہدایت کریں گے کہ کسی بھی علاقے میں سیٹلمنٹ آپریشن شروع کرنیسے قبل مطلوبہ علاقے کی لوکل زبان اور اردو میں کتابچہ/ ہینڈبلز۔ گرلز اسکولوں، کالجز۔ ہسپتالوں میں لیڈی کانسٹیبل یا لیڈی ٹیچر یا متعلقہ بنیادی صحت مرکز ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کی نرس یا میڈ وائف کے ذریعے تقسیم کرائیں گے۔ -سیٹلمنٹ والے علاقوں کے متعلقہ ڈپٹی کمشنرز کو بھی حکم دیا جائے کہ وہ ان علاقوں کی نہ صرف مساجد مدرسوں میں لوڈ سپیکرز کے ذریعے اعلان کروائے بلکہ سیٹلمنٹ آپریشن والے مقررہ علاقوں کی حدود میں نقاروں کے ذریعے گلیوں / قرب و جوار میں بھی اعلانات کروائے۔ -7ڈی جی نادرا کو بھی حکم دیا جاتا ہے کہ وہ متعلقہ ضلع /تحصیل کے ریونیو آفس میں رجوع کرنے/ درخواست دینے والوں کے لیے خصوصی ڈیسک قائم کرے جو اس متوفی مورث کا شجرہ نسب فراہم کرے گا جس کی جائداد تقسیم ہونی ہے یا پھر سیٹلمنٹ آپریشن کے دوران مرحوم اور اس کی جائیداد میں تمام قانونی وارثین چاہے مرد ہو یا خواتین ان کے ناموں کی شمولیت یقینی بنائی جائے گی۔-8ڈی جی نادراکو بھی یہ حکم دیا گیا کہ وہ رجسٹریشن ٹریکسسٹم(RTS) کے ذریعے قانونی وارث خاتون کی شادی کے بعد اس کے شوہر کے شجرہ نسب میں نام کی شمولیت یقینی بنائے اور خواتین کو ان کے قانونی حق سے کسی بھی طرح محروم رکھنے سے بچانے کے لیے والد کی طرف سے بھی شجرہ نسب معلوم کرے۔ -9سیکرٹری/ ممبر بورڈ آف کو حکم دیا گیا کہ وہ ریونیو آفس میں خصوصی ڈیسک کے قیام تک شجرہ نسب کی فراہمی میں غیر ضروری تاخیر سے بچنے کے لیے ڈی جی نادرا کے مکمل میکانزم کی تشکیل کیلئے اجلاس بلوائے اور میکنیزم کی تشکیل تک اس فیصلے پر عملدرآمد کے لیے عبوری طریقہ کار وضع کریں۔ 10۔سکریٹری/ممبر بورڈ آف ریونیو کو مزید حکم دیا گیا کہ وہ ایک شکایت سیل ایڈیشنل سیکرٹری رینک کے افسر کی نگرانی میں ریونیو آفس میں قائم کریں گے تاکہ سیٹلمنٹ آپریشن و وراثت کے عمل میں غیر ضروری تاخیر سے بچا جا سکے اور اس کے ذریعے غیر قانونی مراعت کے امکان کو بھی رد کیا جا سکے۔-11ممبر بورڈ آف ریونیو اور اس کے ماتحت عملہ کو سختی سیحکم دیا جاتا ہے کہ قانونی وارث کو محروم رکھنے کی شکایت موصول ہوئی تو ایسے غلط کام کرنے والوں کے خلافPPC 498A کے تحت کیس درج کرکے قانونی کارروائی شروع کی جائے گی۔12۔سول کورٹ کو بھی حکم دیا جاتا ہے کہ وراثت سے متعلق دائر مقدمات جو کہ زیرالتوا ہیں ان کا فیصلہ اس حکم کے موصول ہونے کے تین ماہ کے اندر اندر کر دیا جائے یا پھر التوا کیسز کے لئے یہ مدت زیادہ سے زیادہ 6 ماہ سے زائد نہیں ہونی چاہیے جب کہ اگر کوئی نیا مقدمہ قائم ہوتا ہے تو اسے بطور وراثت کا مقدمہ/اپیل/ رویژن/ پٹیشن درج کیا جائے اور اس کا فیصلہ تین ماہ میں بغیر مزید وقت دیے کر دیا جائے اسی طرح ایپلٹ کورٹ اور رویژن کورٹ میں زیر التواتمام درخواستوں کو ترجیحاً تو ایک ماہ میں نمٹا دیا جائے لیکن تاخیر کی صورت میں درخواست کو دو ماہ سے زائد التواء میں نہ رکھا جائے عدالت عالیہ کے انسپکشن ٹیم کا ممبر ان احکامات پر من و عن عمل درآمد کے لئے سرکلر جاری کریں۔ -13عدالت عالیہ کے رجسٹرار کو بھی حکم دیا جاتا ہے کہ اگر کوئی بھی شکایت متاثرہ شخص کی جانب سے کسی ریونیو سیٹلمنٹ اہلکار یا کسی بھی غیر سرکاری فرد کی بابت موصول ہوتی ہے کہ اس نے وراثت یا سیٹلمنٹ میں قانونی خاتون وارث کو محروم رکھا ہے تو درخواست ہمارے چیمبر میں غور کے لیے پیش کی جائے اور اس پر مناسب حکم دیے جانے کے بعد اسے فورا سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو کی اطلاع اور عملدرآمد کے لیے بھجوایا جائے۔4۔ کوئی بھی درخواست/ شکایت جو اس فیصلے سے متعلق درج ہوتی ہے تو اسے ایگزیکیوشن درخواست کے طور پر لیا جائے گا جو بعد ازاں سیول متفرقہ درخواست کے طور پر یا تو سی پی سی1908 کے تحت چلائی جائے گی یا توہین عدالت ایکٹ دو ہزار تین کے تحت اور بسیکشن 200 Cr PC کے تحت کریمنل کمپلینٹ کے طور پر چلائی جائے گی۔جا ری کر دہ تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار جو کہ ایک وکیل سیاسی کارکن اور ایک سوشل ورکر بھی ہے وہ اس درخواست کے ذریعے عوامی مفاد میں اپنی درخواست کے حق میں فیصلہ چاہتے ہیں اوراس بنیاد پر کہ عموما پورے ملک اور خصوصا صوبے بلوچستان میں خواتین ورثا کے حق بارے قرآنی احکامات اور نہ ہی آئین پاکستان میں درج قوانین پر عمل کیا جاتا ہے صوبہ بلوچستان کے پیچیدہ قبائلی نظام میں خواتین کو ان کے جائز قانونی وراثت سے محروم رکھا گیا ہے جب بھی اس کے متوفی مورث کی جائیداد کی تقسیم ہوئی ہے تو مستورات کو بلا کسی جائز وجہ سے یا تو نظر انداز کرکے یا پھر وارثین کی فہرست سے ان کا نام نکال کر انہیں محروم رکھا گیا ہے اور اس طرح کے کیس میں یہ چیز بھی دیکھی گئی ہے کہ خاتون قانونی وارث کو تحفے یا دستبرداری نامہ کا بہانہ بناکر محروم رکھا گیا ہے اسی طرح یہ بہانہ بنا کر ان خواتین کو محروم رکھا گیا ہے کہ ان کا قانونی حصہ دولہن کے تحفوں یا نگہداشت الاؤنس کی شکل میں پہلے ہی ادا کیا جا چکا ہے جب کہ قبائلی نظام میں مرد(بیٹے) کو حقیقی جانشین گردانا جاتا ہے اس لیے شجرہ نسب میں خواتین کا نام جانشین کے طور پر شامل نہیں ہوتا کیونکہ ایسا کرنا غیرت کا سوال بنتا ہے یہ معاملات وراثت کے انتقال کے وقت خواتین کو ان کے حقوق سے محرومی کا موجب بنتے ہیں مزید یہ کہ اگر کوئی خاتون اپنے حق کے لئے دعویٰ کرتی ہے تو اس کے مرد رشتے دار مشتعل ہوجاتے ہیں اور جبر کا سہارا لیتے ہوئے ناخوشگوار واقعہ/جرم کا موجب بنتے ہیں جیسا کہ بعض اوقات ان کی زبردستی شادیاں کر دی جاتی ہیں جبری گمشدگیاں یا پھر جبرا انہیں شادی سے روک دیا جاتا ہے صوبہ بلوچستان میں جاری۔ سٹلمنٹ آپریشن کے پس منظر میں بھی یہ حقیقت سامنے آئی ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں