افغانستان سمیت 30 ممالک ميں بھوک کے شدید بحران کا خطرہ ہے، اقوام متحدہ

یمن :اقوام متحدہ نے متنبہ کیا ہے کہ اگلے تین ماہ کے دوران دنیا کے 23 ملکوں میں بھوک کے شدید بحران کا خطرہ ہے۔ ایتھوپیا ، جنوبی مڈغاسکر، یمن، جنوبی سوڈان اور شمالی نائجیریا میں حالات انتہائی تباہ کن صورت اختیار کر سکتے ہیں۔اقوام متحدہ کے اداروں ‘فوڈ اینڈ ایگری کلچرآرگنائزیشن (ایف اے او) اور ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) نے اگست اور نومبر کے درمیان بھوک کے بحران سے دوچار ہونے والے ممکنہ ملکوں کے حوالے سے جمعے کے روز جاری کردہ اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ خوراک کی عدم دستيابی کی صورت حال مزید خراب ہوسکتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق ایسے ملکوں میں ایتھوپیا سرفہرست ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر فوری امداد فراہم نہیں کی گئی تو ایتھوپیا میں بھوک کا شکار اور اس سے ہونے والی اموات کی تعداد چار لاکھ ایک ہزار تک پہنچ سکتی ہے۔ جو کہ صومالیہ میں سن 2011 کے قحط سے مرنے والوں کی تعداد سے بھی زیادہ ہے۔

ایف اے او اور ڈبلیو ایف پی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بھوک کا بحران نہ صرف اپنی وسعت کے لحاظ سے بلکہ شدت کے لحاظ سے بھی سنگین ہوتا جا رہا ہے۔”اگر زندگی اور معاش بچانے کے لیے فوری مدد فراہم نہیں کی گئی، تو دنیا بھر میں مجموعی طور پر چار کروڑ دس لاکھ افرادکے قحط یا قحط جیسی صورت حال سے دوچار ہونے کا خطرہ ہے۔”

اقوام متحدہ کی ان دونوں ایجنسیوں نے دنیا بھر میں بھوک کے بحران سے سب سے زیادہ دوچار ہونے والے 23 ملکوں میں فوری امداد فراہم کرنے کی اپیل کی ہے اور کہا کہ پانچ سب سے زیادہ سنگین صورت حال والے مقامات ایتھوپیا کے تیگرائی، جنوبی مڈغاسکر، یمن، جنوبی سوڈان اور شمالی نائجیریا میں قحط اور اموات کو روکنے کے لیے فوراً امداد کی ضرورت ہے۔

اقوام متحدہ کے اداروں نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے،”ابتر ہوتی ہوئی اس صورتحال کی اہم وجہ ان علاقوں میں جاری تصادم نیز کووڈ انیس کی وبا کے اثرات ہیں۔ خوردنی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ، نقل و حمل پر پابندیوں کی وجہ سے مارکیٹ تک محدود رسائی اور افراط زر کی وجہ سے قوت خرید میں کمی نیز مختلف آفات کی وجہ سے فصلوں کو ہونے والے نقصان بھوک کے بحران میں اضافے کے دیگر اسباب ہیں۔”رپورٹ کے مطابق افغانستان ان نو ممالک میں شامل ہے جہاں سب سے زیادہ لوگ ‘خوراک کی عدم سلامتی کے سنگین مسئلے‘ سے دوچار ہیں۔ دیگر ممالک برکینا فاسو، وسطی افریقی جمہوریہ، کولمبیا، کانگو، ہیٹی، ہونڈوراس، سوڈان اور شام ہیں۔

ایف اے او اور ڈبلیو ایف پی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں جون سے نومبر کے درمیان پینتیس لاکھ افراد کو خوراک کی قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جو کہ دوسری سب سے بڑی تعداد ہے۔ اس کی وجہ سے قلت تغذیہ اور اموات کا خطرہ لاحق ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ امریکی اور نیٹو افواج کی اگست تک افعانستان سے واپسی کے نتیجے میں تشدد میں اضافہ ہو سکتا ہے، مزید افراد بے گھر ہو سکتے ہیں اور انسانی امداد تقسیم کرنے میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔

اقوام متحدہ کی ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ جنوبی سوڈان، یمن اور نائجیریا کو الرٹ کی فہرست میں اولین مقام پر رکھا گیا ہے۔ جب کہ اس فہرست میں تیگرائی کی وجہ سے ایتھوپیا اور جنوبی مڈغاسکر کو بھی پہلی مرتبہ شامل کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ جنوبی سوڈان میں پیبور کاونٹی کے کچھ حصوں میں اکتوبر اور نومبر 2020 سے ہی قحط جیسی صورت حال ہے اور بروقت اور مسلسل انسانی امداد نہیں ملنے کی وجہ سے یہ صورت حال برقرار رہنے کا خدشہ ہے جبکہ دیگر دو علاقوں میں بھی قحط کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔

اقوام متحدہ کی ایجنسیوں نے کہا، ”یمن میں مزید افراد کے بھوک کا شکار ہونے جیسی صورت حال پر کسی حد تک قابو تو پالیا گیا ہے تاہم یہ حالات انتہائی غیر مستحکم ہیں۔” نائجیریا میں شمال مشرقی علاقے میں بڑی آبادی تصادم سے متاثر ہے اور ان کے خوراک کی عدم سلامتی کی سطح تباہ کن حالت تک پہنچ جانے کا خدشہ ہے۔

جنوبی مڈغاسکر، جو پچھلے چالیس برسوں کے دوران سب سے بدترین خشک سالی سے دوچار ہے، میں ستمبر تک چودہ ہزار کے قریب لوگوں کے خوراک کی شدید ترین عدم سلامتی اور بھوک کی وجہ سے موت کا شکار ہونے کا خدشہ ہے۔ اس برس کے اواخر تک یہ تعداد دو گنا ہو سکتی ہے اور اٹھائیس ہزار لوگوں کو فوری امداد کی ضرورت ہوگی۔

ایف اے او اور ڈبلیو ایف پی تازہ ترین رپورٹ میں ان ایجنسیوں کی اس سال مارچ میں پیش کردہ رپورٹ کے مقابلے میں چھ مزید ممالک، چاڈ، کولمبیا، شمالی کوریا، میانمار، کینیا اور نکاراگوا کا اضافہ ہوا ہے۔جو دیگر ممالک اگلے تین ماہ کے دوران بھوک کے شدید بحران سے دوچار ہونے والے ہیں ان میں صومالیہ، گوٹيمالا اور نائجر شامل ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں