اگر طالبان نے پنجابیوں اور دہشتگرد گروہوں سے بیعت لی ہے تو وہ خود کو افغان نہ کہیں،اشرف غنی

افغان صدر اشرف غنی نے صدارتی محل میں ایک وفد سے ملاقات میں ایک بار پھر پاکستان پر طالبان کی پشت پناہی کا الزام لگایا اور دعویٰ کیا کہ طالبان پنجاب کے کہنے پر افغانستان میں جنگ کو طول دے رہے ہیں۔
افغانستان کے جنوب اور مغرب میں موجود تین بڑے شہروں (ہرات، لشکر گاہ اور قندھار) میں لڑائی جاری ہے۔ طالبان جنگجو ان شہروں کو سرکاری فورسز سے چھیننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لشکر گاہ میں جنگجوؤں کی آمد کے پیش نظر افغان فورسز نے اپنے سینکڑوں کمانڈر وہاں تعینات کر دیے ہیں۔صوبہ ہلمند میں فوجی نمائندے نے کہا ہے کہ وہ بری فورسز اور فضائی حملوں کی مدد سے طالبان کے حملوں کو روک رہے ہیں۔مگر صدر غنی نے اپنے حالیہ بیان میں طالبان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر آپ افغان ہیں تو آئیں اور ملک کی تعمیر میں کسی نتیجے پر پہنچیں۔ اور اگر آپ نے پنجابیوں اور دہشتگرد گروہوں سے بیعت لی ہے تو اپنے آپ کو افغان نہ کہیں۔
خیال رہے کہ پاکستانی حکام نے بارہا اس نوعیت کے الزامات کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ پاکستان افغانستان میں امن چاہتا ہے اور یہ کہ پاکستان افغان حکومت کے خلاف طالبان کی پشت پناہی نہیں کر رہا بلکہ تمام فریقین کے درمیان مذاکرات کے لیے کردار ادا کر رہا ہے۔
صدر غنی نے خطاب میں کیا کہا؟
افغان صدر اور اُن کی حکومت طالبان پر پہلے دن سے پاکستان کی پشت پناہی کا الزام لگاتے ہیں اور اکثر اوقات پاکستان کی جگہ پنجاب اور پنجابیوں کا نام لیتے ہیں۔
بی بی سی کے خدائے نور ناصر کے مطابق صدر غنی نے اپنے خطاب میں طالبان پر الزام لگایا کہ اُنھوں نے اپنے دور میں صرف ایک آدمی کی وجہ سے پورے افغانستان کو جنگ میں دھکیلا۔ اُنھوں نے القاعدہ نیٹ ورک کے سربراہ اُسامہ بن لادن کا نام لیا اور طالبان سے پوچھا کہ ’کیوں آپ نے ایک آدمی کی خاطر پورے افغانستان کو برباد کیا۔۔۔ ایک آدمی اہم تھا یا دو کروڑ 50 لاکھ افغان عوام؟‘
صدر غنی نے اس خطاب میں پوچھا کہ طالبان کے سربراہ مُلا ہیبت اللہ کہاں اور کس غار میں ہیں اور وہ زندہ ہیں بھی یا نہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ’اگر وہ زندہ ہیں تو آئیں ہرات کے بازاروں میں گھومیں، مزار کی گلیوں میں گھومیں اور کابل میں گھومیں۔طالبان کے سربراہ ملا ہیبت اللہ اور اُن کی دیگر قیادت نامعلوم مقام سے طالبان کی قیادت کر رہے ہیں۔

کئی افغان یہ دعویٰ کر رہے کہ طالبان کی قیادت پاکستان میں روپوش ہیں لیکن خود افغان طالبان کا دعویٰ ہے کہ اُن کی تمام قیادت افغانستان میں ہے لیکن سیکورٹی وجوہات کی بنا پر روپوش ہے۔صدر غنی نے کہا کہ اگر طالبان کو عوام کا احترام ہے اور انتخابات میں حصہ لینا چاہیں تو وہ چھ ماہ یا ایک سال میں نئے انتخابات کا اعلان کرسکتے ہیں۔انھوں نے زور دیا کہ افغانستان میں خونریزی کی اجازت نہیں دیں گے اور افغانوں کے ایک دوسرے کو مارنے کی کوئی اسلامی وجہ نہیں ہے۔افغان صدر نے امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ معاہدے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنے خطاب میں کہا کہ طالبان نے اپنے قیدیوں کی رہائی میں کم از کم چالیس بڑے اور مشہور سمگلرز کو بھی رہا کرایا۔انھوں نے طالبان پر الزام لگایا کہ وہ ملک میں مختلف صوبوں میں قدرتی معدنیات کی سمگلنگ میں ملوث ہیں۔
افغان صدر کے بیان پر طالبان کا ردعمل
طالبان نے اس کے ردعمل میں کہا ہے کہ اشرف غنی کا بیان ’سب بکواس تھا۔ وہ (غنی) اپنی مشکل صورتحال کو کنٹرول کرنا چاہتے ہیں۔قوم نے فیصلہ کیا ہے کہ غداروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی اور انصاف ہوگا۔اس ردعمل میں مزید کہا گیا کہ صدر غنی کا ’وقت اب ختم ہوگیا ہے۔ اعلانِ جنگ، الزامات اور غلط معلومات سے انھیں مزید وقت نہیں ملے گا۔ماضی میں طالبان صدر غنی کی افغان حکومت کو ’کٹھ پتلی‘ قرار دیتے رہے ہیں۔

صدر غنی کی پاکستانی علما پر تنقید
افغان صدر اشرف غنی نے اس تقریر میں پاکستان پر الزامات کے ساتھ ساتھ مولانا سمیع الحق کے بیٹے پر تنقید کی اور کہا کہ اُنھیں افغانستان کے نظام میں کوئی اختیار نہیں۔اگرچہ افغان صدر نے اس تقریر میں مولانا سمیع الحق کے بیٹے کا نہ ہی نام لیا اور نہ ہی اُن کی جانب سے کسی خاص بیان کا ذکر کیا۔تاہم جمعیت علما اسلام س کے سربراہ مولانا سمیع الحق اور اُن کی جماعت روز اول سے طالبان کی نہ صرف کھلم کھلا حمایت کرتے ہیں بلکہ مولانا سمیع الحق کو اپنی زندگی میں ہی ’فادر آف طالبان‘ کا لقب مل چکا تھا۔طالبان قیادت کے کئی رہنما اور کمانڈر فوٹ سولجرز دارالعلوم حقانیہ سے دینی تعلیم حاصل کرچکے ہیں اور اس مدرسے کا شروع ہی سے طالبان پر اثر ورسوخ رہا ہے اور اُن کی حمایت بھی کرتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں