براڈ شیٹ کمپنی مقدمہ جیت گئی

براڈ شیٹ کیس میں لندن ہائی کورٹ نے قومی احتساب بیورو(نیب) کی بانی ٹیم کی جانب سے معاہدے کی کھلی خلاف ورزی کے حوالے سے براڈ شیٹ کمپنی کے مؤقف کو درست قرار دیتے ہوئے نیب کو 13اگست تک (10دن میں)3مدات میں 12کروڑ22لاکھ 3ہزار 790 ڈالر، 110 پاؤنڈاور26 لاکھ29ہزار680پاؤنڈاضافی اخراجات کی ادائیگی کا حکم دیا ہے۔پاکستانی کرنسی میں یہ رقم22ارب کے لگ بھگ ہے۔یاد رہے کہ نیب اس وقت کے آرمی چیف اور سی ای او پاکستان جنرل پرویز مشرف کے حکم پر تشکیل دیا گیا تھا۔ان کے حکم پر براڈشیٹ نامی کمپنی سے معاہدہ ہوا تھا کہ وہ اپوزیشن میں شامل سیاس دانوں کے بیرون ملک اثاثہ جات کی تفصیلات نیب کو فراہم کرے۔براڈ شیٹ کمپنی کا دعویٰ ہے کہ اسنے معاہدے کے مطابق بھاری مالیت کی جائیدادوں اور بینک اکاؤنٹس کا کھوج لگا لیا تھا،ریکوری نیب کو کرنی تھی۔جب تک براڈ شیٹ نے اپنا کام مکمل کیا اس وقت تک سی ای او پاکستان متعلقہ سیاست دانوں سے این آر او نامی دوستانہ معاہدہ کر چکے تھے جس کے تحت زیر عتاب سیاست دانوں پر لگائے گئے تمام الزامات واپس اور زیر سماعت مقدمے ختم ہو گئے تھے اور نیب ان کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہا تھا۔یہ بحث کہ پاکستانی حکومت نے معاہدہ یکطرفہ طور پر ختم نہ کیا ہوتا تو آج پاکستان کواتنی بڑی ادائیگی نہ کرنا پڑتی۔ ہیہ بحث ضرور ہونی چاہیئے، اس کے ذمہ داروں سے مذکورہ ادائیگی نکلوانے کے لئے اقدامات بھی کئے جائیں،مگر یہ ہمارا اندرونی مسئلہ ہے، برطانوی ہائی کورٹ کے حکم کی تعمیل 10روز میں کر دی جائے تاکہ اپیل کا حق محفوظ رہے۔ عالمی معاہدوں کی خلاف ورزی کرنے والے ہم تنہا نہیں ہیں، ہمارے پڑوسی ملک بھارت نے بھی 5اگست 2019کو مقبوضہ کشمیر اور چین کے ساتھ کیا گیا معاہدہ بھی یکطرفہ طور پر ختم کرد یا تھا۔یہ اصولوں اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی تھی۔اس بھارتی خلاف ورزی کے نتیجے میں تین فریق متأثر ہوئے:اول چین؛جس کا لداخ کے علاقے پر دیرینہ تنازعہ تصفیہ طلب تھا۔بھارت نے چین کو اعتماد میں لئے بغیر لداخ کی پرانی آئینی حیثیت ختم کردی اور لداخ کو دہلی سے کنٹرول کرنے کا اعلان کردیا،دوم: مقبوضہ کشمیر؛ کی آئینی حیثیت ختم کردی اور وہاں 7لاکھ مسلح فوجیوں کو مسلط کرکے کرفیو نافذ کردیا جو آج تک نہیں ہٹایا گیا، اور سوم:پاکستان؛جو اپنی حکمت عملی کے تحت براہراست کچھ کرنے کی بجائے اقوام متحدہ کو 1948میں منظور کردہ قراردادوں پر عمل درآمد کی اپیلیں کرنے اور عالمی ضمیر کو جگانے کی کوشش میں مصروف ہے۔اپوزیشن کو یقین ہے کہ موجودہ حکومت نے کشمیر کا سودا کر دیا ہے، مودی سرکار کی گود میں ڈال دیا ہے لیکن آزاد کشمیر کے عوام نے 25جولائی کو اپوزیشن کا مؤقف مسترد کرتے ہوئے پاکستان کے اقدامات کی توثیق کی ہے۔ چین نے ایک سال بعد اپنی خاموشی توڑدی اور ایک گولی چلائے بغیر،مکے، ڈنڈے، لاتیں اور گھونسے استعمال کر کے متنازعہ لداخ کا قبضہ حاصل کر لیا، اور سرحد کے دونوں پار چین کا حکم چلتا ہے۔دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کے 11راؤنڈ ناکام ہو چکے ہیں، 12واں اگست میں ہوگا۔اس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ جب کوئی حکومت آئین اور قانون سے خود کو بالاتر سمجھنے کی حماقت کرتی ہے تو اسے دنیا بھر میں رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔پاکستان میں اپوزیشن کشمیر کے مسئلے پر حکومتی سودے بازی کے بلنگ بانگ الزامات عائد کرتے وقت چین کی جانب سے کئے گئے جرأت مندانہ اقدامات پر خاموش ہے۔مولانا فضل الرحمٰن طویل عرصے(10سال) تک(پی پی پی اور مسلم لیگ نون کے ادوار میں) کشمیر کمیٹی کے چیئرمین رہے ہیں، ان کا عہدہ مرکزی وزیر کے برابر تھا،سادسلام آباد میں سرکاری رہائش رکھتے دیگر مراعات سے بھی بھرپور استفادہ کرتے رہے، وہ بھی چپ ہیں۔چین کی جوابی کارروائی کا ذکر ان کی زبان پر کبھی نہیں آیا۔حالانکہ سی پیک پر ایک سے زائد بار دعویٰ کرتے سنے گئے ہیں:”چین کو سی پیک کی افادیت میں نے ہیلی کاپٹر کے ذریعے ایک دورے کے دوران سمجھائی تھی“۔خطے کی صورت حال سے ایک ہی سبق ملتا ہے کہ معاہدوں کی پاسداری کی جائے،ملکی آئین کو شخص واحد (سویلین ہو یا باوردی)تبدیل نہیں کر سکتا۔اس غلطی کی بھاری(سیاسی اور مالی) قیمت چکانی پڑتی ہے۔جواب دہی مشکل ہو جاتی ہے۔نہتے عوام کو لاٹھی گولی کی مدد سے وقتی طور پر دبایاجا سکتا ہے مگر ہمیشہ کے لئے ان کی زبان بندی نہیں کی جا سکتی۔افغانستان کے ناخوشگوار حالات بھی امریکی خودسری کی پیداوار ہیں۔نیٹو افواج امریکی ہاں میں ہاں ملانے کی غیر اصولی غلطی کے رسوا کن نتائج بھگت رہی ہیں۔عراق پرحملے کا فیصلہ اقوام متحدہ کی رہنمائی اور مشاورت کے بغیر یکطرفہ طور پر امریکہ نے کیا تھا۔ نیٹو ممالک کو امریکہ کا ساتھ نہیں دینا چاہیئے تھا۔اصولوں کی پاسداری کرنی چاہیئے تھی۔جس طرح گھر کی چار دیواری کو تقدس حاصل ہے، اسی طرح ملکی سرحدوں کو عبور کرنا بھی غنڈا گردی اور بدمعاشی کے مترادف نہ سمجھا جائے تو وہیکچھ سانے آتا ہے جو آج افغانستان میں ہوتا نظر آرہا ہے۔افغان صدر اشرف غنی میدان جنگ میں طالبان کے گھٹنے توڑنے کا اعلان کرہے ہیں۔اتنا بڑا اعلان کرنے سے پہلے وہ یہ نہیں سوچتے کہ یہ کام عالمی قوت امریکہ اپنے مرعوب کن وسائل اورنیٹو اتحادیوں کے جاہ جلالاور حامد کرزئی، اشرف غنی حکومت کی فہم و فراست سمیت 20برس میں نہیں کرسکا، وہ تنہا یا دور سے بھیجی گئی مالی اور اسلحے کی مدد سے کیسے انجام دے سکیں گے؟بھارت کے وسائل بھی اس میں شامل کر لیں، تب بھی کیا فرق پڑے گا؟ کیا بھارت ماضی کی دو دہائیوں کے دوران افغانستان میں فعال نہیں رہا؟اس نے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری نہیں کی؟آج کابل کے سوا باقی تمام بھارتی سفارت خانے بند کیوں ہیں؟اس منظر سے آنکھیں بند کرنے کا نتیجہ ایک اور رسوائی کی شکل میں نکلے گا۔مذاکرات کے ذریعے کسی عوام دوست/ باوقارسیاسی معاہدے تک پہنچنے کی مخلصانہ کوشش کی جائے۔ زمینی حقائق سے یہی نظر آتا ہے کہ افغان مسئلے کا کوئی فوجی حل نتیجہ خیز نہیں ہوگا۔تباہی اور بربادی کا سلسلہ طول پکڑے گا،ہلمند کی سڑک پر ایک افغان بچے کے لاش سے سبق سیکھا جائے۔یہ بچہ افغانستان کا مستقبل تھا۔افغانستان کا مستقبل اپنے ہاتھوں لاشوں کے ڈھیر میں تبدیل نہ کیا جائے۔اسے روشن اور تابناک بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔2500افغان امریکی افواج کے مترجم تھے،امریکہ انہیں اپنے فوجیوں کے ساتھ امریکہ منتقل کر چکا ہے۔ عقل والوں کے لئے اس میں عبرت کاسامان پوشیدہ ہے۔اَللہ کا فرمان ہے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فاعتبروایا اولی الابصار

اپنا تبصرہ بھیجیں