پاکستان اور جنوبی ایشیا معاشی خطرے میں؛عالمی بینک

عالمی بینک نے کورونا وائرس کے باعث پاکستان کی معیشت پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے ”رسک رپورٹ جاری کی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی ملکی مجموعی پیداوار1952کے بعد پہلی مرتبہ منفی ہونے کا خدشہ ہے۔اور پاکستان کی معیشت مزید دو سال تک دباؤ کا شکار رہے گی۔رواں مالی سال میں مجموعی قومی پیداوارمنفی 1.3تک کم ہو سکتی ہے۔یاد رہے کہ 1952میں شرح نمومنفی 1.8تھی۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ رواں مالی سال2019-20 کے پہلے 8ماہ کے دوران پاکستان نے معاشی استحکام کی طرف کافی پیشرفت کی گھریلو اور بیرونی عدم توازن کو کم کرنے میں مددملی مگر کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی رکاوٹوں نے معاشی سر گرمیوں کو متأثر کر دیا ہے پاکستان کا بجٹ خسارہ 8.7سے9.5تک پہنچ سکتا ہے اس کے نتیجے میں پاکستان کی معیشت میں قرضوں کا حجم بڑھ سکتا ہے۔پاکستان کو دوست ممالک چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب کے قرضے واپس کرنے میں مشکلات پیش آئیں گی۔کورونا وائرس کی وجہ سے سرمایہ کاری کا حجم کم ہو سکتا ہے۔سرمایہ کاری کم ہونے سے ڈالر کی قدر بڑھے گی،اور پاکستان کا ایکسچینج ریٹ دباؤ میں آجائے گا۔طویل لاک ڈاؤن کی صورت میں پورے خطے کی معیشت سکڑ سکتی ہے بیروزگاری کے سدباب کے لئے مزید اقدامات کرنے ہوں گے۔
وزیر اعظم عمران خان نے اسی تناظر میں عالمی برادری اقوام ِمتحدہ کے سیکرٹری جنرل عالمی مالیاتی اداروں اور ترقی یافتہ ممالک سے اپیل کی ہے کہ ترقی پذیرملکوں کو بھوک سے مرنے سے بچایا جائے۔ ترقی پذیر ملکوں کو قرض میں ریلیف دیا جائے۔ وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں واضح کیا ہے کہ امریکا نے 2ہزارارب ڈالر جرمنی نے ایک ہزار یورو جاپان نے ایک ہزار ارب ڈالر کورونا وائرس سے نمٹنے کے لئے مختص کئے ہیں جبکہ پاکستان کم وسائل کی وجہ سے 8ارب ڈالر سے زیادہ نہیں کر سکا اور یہ انتہائی کم رقم ہے۔
وزیرِ اعظم عمران خان اس سے پہلے پاکستان کوقیمتی وسائل سے مالا مال ملک قرار دیتے رہے ہیں اس کی زرخیز زمین، سارا سال بہنے والے دریا، چار موسم، قیمتی معدنیات،جفاکش عوام کاذکر کرتے رہے ہیں دنیا کے پرکشش دیدہ زیب اور دلکش قدرتی مناظر کاحوالہ دیا کرتے تھے اگلے روز اچانک ان کی زبان سے بے بسی اور کمزوری پر مبنی جملے کیسے آگئے ہیں؟کورونا وائرس ایک عارضی وبا ہے، چند ہفتوں یا مہینوں میں ختم ہو جائے گی کورونا وائرس خود کش بمباروں کی طرح انسانوں کے ٹکڑے فضاء میں نہیں اچھالتا، عمارتوں اوردیگر اثاثوں کو تباہ نہیں کرتاسرکاری اداروں کو عوام دشمن نہیں بناتا۔ پی آئی اے، پاکستان اسٹیل مل اور ریلوے کو اپاہج نہیں کرتایہ ادارے پاکستان کے حکمرانوں نے تباہ کئے ہیں۔پاکستان کی زرخیز زمین کو پانی سے محروم کرنے کی سازش ڈیم، نہ بنانے کا نعرہ لگانے والے حکمرانوں نے کی ہے عوام کو سستی بجلی سے محروم کرکے گردشی قرضوں کے جال میں جکڑنے والے ہمارے حکمران ہیں کورونا وائرس نہیں۔
پاکستان کی مقتدرہ کو آج انتہائی سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ مستقبل میں کیسی حکمتِ عملی اختیار کی جائے؟یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ پاکستان کے قیمتی قدرتی وسائل اس ملک میں بسنے والے کروڑوں عوام کی ملکیت ہیں، یاچندنو دولتیؤں کی ملکیت ہیں جو ناقابل اعتماد انتخابات کا ڈرامہ رچا کر اس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک قرار دیئے جاتے ہیں اور اس ہیرا پھیری اور جعلسازی کے نتیجے میں عوام کو بھوک پیاس، جہالت، بیماری اور بیروزگاری کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ ہمارے اسپتال اس لئے وینٹی لیٹر سے محروم ہیں کہ پاکستان کے انجینئروں کو دو نمبری حکمرانوں نے خودساختہ قانون کے ذریعے اس کام سے روک رکھا تھا۔
کورونا وائرس نے دنیا بھر کے حکمرانوں کے ساتھ پاکستانی حکمرانوں کو بھی بے نقاب کردیا ہے۔ آج کرونا وائرس کامطالبہ ہے ساری دنیا کے سیانے مل بیٹھیں ایک نیا معاہدہئ عمرانی کریں۔مٹھی بھرامیر خاندانوں سے حق حکمرانی واپس لیا جائے،ان غریبوں اور درمیانے طبقے کو لوٹایا جائے جن کی جیبوں سے ملکی اور غیر ملکی قرضے واپس کئے جاتے ہیں۔یہ طے کیا جائے کہ آئندہ کوئی معاہدہ عوام سے پوشیدہ نہیں رکھا جائے گا۔ بجلی گھر لگانے سے پہلے معاہدے کو پبلک کیا جائے گا تاکہ عوام کو معلوم ہو سکے بجلی کے نام پر انہیں غیر ملکی اور ملکی کمپنیوں کا غلام تو نہیں بنایا جا رہا؟انتخابی قوانین میں اصلاح کی جائے، اس عمل کو سستا، سادہ اور شفاف بنایا جائے۔تسلیم کیا جائے کہ 2013 اور 2018کے انتخابات شرمناک حد تک خود ساختہ اور عوامی رائے کے برعکس تھے۔اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ کوئی شخص جعلی ووٹ نہ ڈال سکے۔سسٹم بائیو میٹرک ہو جانچ پڑتال کے لئے دستیاب ہو۔کوئی قانون شکن پارلیمنٹ میں نہ جانے پائے۔اس کی تیاری کی جائے۔یہی مسئلے کا درست اور دیرپا حل ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں