علماء اور حکومت تصادم سے بچیں

اگلے روزکراچی میں رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمٰن اور مفتی تقی عثمانی نے دیگر علماء کی موجودگی میں اعلان کیا ہے کہ لاک ڈاؤن کا اطلاق اب مساجد پر نہیں ہوگا۔پانچوں اوقات، نمازِ جمعہ، اور تراویح کی نمازاحتیاطی تدابیر کے ساتھ باجماعت ادا کی جائے گی آئمہ مساجد کا کام مسجد میں آنے والوں کو نماز پڑھانا ہے آئمہ مساجد لوگوں کو نماز سے روک نہیں سکتے۔تین یا پانچ افرادکی حکومتی پابندی قابلِ عمل ثابت نہیں ہو رہی بیماراور وائرس سے متأثر یا ان کی عیادت پر مامور بزرگ افراد مسجد کی بجائے گھروں پر نماز ادا کریں انہیں جماعت کا ثواب ملے گا۔مساجدسے قالینوں کو ہٹا کر ہر نماز کے بعد جراثیم کش ادویات سے صفائی کی جائے۔ مساجد کے دروازوں پر سینی ٹائزر گیٹ نصب کئے جائیں۔اس شرعی ذمہ داری میں اہلِ محلّہ اور مخیر حضرات کرداراداکر سکتے ہیں۔دو صفوں کے درمیان ایک صف کا فاصلہ ہو اور دائیں بائیں مقتدی مناسب فاصلے سے کھڑے ہوں۔اگرچہ عام حالات میں شرعاً ایسا مکروہِ تحریمی ہے تاہم عذر کی بنیاد پر انشاء اللہ کراہیت باقی نہیں رہے گی۔ تمام حضرات وضو گھر سے کرکے آئیں۔ سنتیں اور نوافل بھی گھر میں ادا کریں۔نمازی حضرات ہاتھ صابن سے دھو کر اور ماسک پہن کر مسجد میں آئیں۔نمازِ جمعہ میں اردو تقریر بند کی جائے اوراگر ضرورت محسوس ہو تو صرف 5منٹ کے لئے احتیاطی تدابیر سے آگاہ کیا جائے۔خطبہئ جمعہ کو ضروری حمد و صلوٰۃ تقویٰ کے بارے میں ایک آیت اور مسلمانوں کے مصائب سے نجات کی دعا پر محدود رکھا جائے۔جماعت کے بعد اور جماعت سے پہلے ہجوم سے گریز کیا جائے۔نماز کے بعد ہجوم کی بجائے فاصلے سے گھروں کو جائیں۔آئمہ مساجد عوام کو احتیاطی تدابیر کی تلقین کریں تاہم عمل کرانے کی ذمہ داری انتظامیہ کی ہے اس کے لئے علماء کو ذمہ دار نہ ٹھہرایا جائے۔حکومتِ سندھ نے گزشتہ اجلاس میں مساجد کے آئمہ اور انتظامیہ کے خلاف دس مقدمات واپس لینے اور آئندہ اس قسم کے مقدمات قائم نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی لیکن حکومت نے معاہدے کی خلاف ورزی کی اور اس طرح باہمی اعتماد اور اتحاد مجروح ہوا آئندہ ایسی کارروائیوں سے گریز کیا جائے۔ تمام ایف آئی آرز واپس لیں اور آئمہ کو فوری رہا کیا جائے۔حکومت مساجد اور مدارس کو ریلیف دیتے ہوئے ایک سال یا کم از کم تین ماہ کے بجلی گیس اور دیگر یوٹیلٹی بل معاف کرے۔ پوری قوم کورونا وباء کے خاتمے کے لئے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگے اور رجوع کرے۔علماء نے مساجد کو آباد رکھنے کے لئے 13 نکاتی احتیاطی تدابیرکے نفاذ اور عمل کے حوالے سے علماء اور رہنماؤں پر مشتمل ایک 12رکنی کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔ علماء کی جانب سے ایک معقول طریقہئ کار اختیار کرتے ہوئے حکومت کے سامنے اپنی تجاویز پیش کردی ہیں اب گیند حکومت کے کورٹ میں ہے۔ وفاقی حکومت کواس حوالے سے زیادہ سوچ بچار کی ضرورت نہیں رہی۔جہاں تبدیلی کی ضرورت ہو باہمی مشاورت سے کی جائے علماء نے تمام حفاظتی تدابیر دورانِ نماز اختیار کرنے کا عندیہ دیا ہے صف بندی کے دوران دائیں اور بائیں جانب کھڑے نمازی مناسب فاصلہ رکھیں گے جبکہ دو صفوں کے درمیان ایک صف(کم از کم تین سے 6 فٹ کا فاصلہ پہلے ہی طے کرلیا گیا ہے۔ علماء نے یہ بھی نمازیوں کوسمجھا دیا ہے کہ وضو کے علاوہ ہاتھ صابن سے دھو کر اور ماسک پہن کر آئیں قالین مساجد سے ہٹا دیئے جائیں صرف فرض مسجد میں اور سنت اور نوافل گھر پر ادا کرنے کا معاملہ بھی طے کیا جا چکاہے۔اس کے بعد حکومت کے پاس اعتراض کی گنجائش نہیں رہی یا بہت کم ہوگئی ہے۔وفاقی وزیر مذہبی امور معاملہ فہم اور سلجھی ہوئی شخصیت کے مالک ہیں علماء سے مذاکرات کے ذریعے جائزاور اصولی بات منوا لیں گے۔ادھر مفتی منیب الرحمٰن کی طرف سے بھی کھلے دل و دماغ کے ساتھ مذاکرات کے لئے آمادگی کا اظہار کیا جانا اپنی جگہ خوش آئند ہے۔میڈیا اطلاعات کے مطابق آج وزیر اعظم عمران خان ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچیں گے جہاں علماء کرام سے مذاکرات ان کے دورے کا اہم حصہ ہوں گے۔ لاک ڈاؤن ویسے بھی کافی حد تک نرم کیا جا چکا ہے اسکولوں، شادی ہالز اور سینما گھروں تک محدود ہو گیا ہے۔کنسٹرکشن انڈسٹری کے فعال ہوتے ہی ملحقہ صنعتوں میں بھی کام شروع ہو جائے گا تعمیری سامان فروخت کرنے کی دکانیں کھل جائیں گی۔زندگی کی چہل پہل بحال ہو جائے گی۔ تاجر برادری نے بھی دو دن تک اپنی دکانیں بند رکھنے پر آمادگی ظاہر کی ہے تاجروں سے وزیر اعظم کے مذاکرات میں کوئی راستہ نکل آئے گا۔اس موقع پر اگر وزیر اعظم صوبائی حکومت کو بھی مشاورتی عمل کا حصہ بنا لیں اور اپنے پروگرام کی ہرنشست میں وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ بھی ان کے ہمراہ موجود رہیں تو یہ دورہ دور رس نتائج دے سکتا ہے۔لیکن وفاقی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان اور حلیم عادل شیخ کی مشترکہ پریس کانفرنس اور صوبائی وزیر اطلاعات سید ناصر شاہ کی جوابی پریس کانفرنس مختلف منظر کی عکاس ہے کاش دونوں جانب سے سمجھداری کا مظاہرہ کیا جاتا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں