امریکا، کورونا وائرس کا غصہ’ ڈبلیو ایچ او

اداریہ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کوروناوائرس کی تیز رفتار پیشقدمی کو روکنے میں اپنی ناکامی کا اعتراف کرنے کی بجائے سارا الزام عالمی ادارہئ صحت(ڈبلیو ایچ او) پر لگاتے ہوئے اسکے فنڈز روک دیئے ہیں۔جبکہ روس، چین اور دیگر ممالک کی طرف سے امریکی فیصلے کو غیر دانشمندانہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے وقت میں جب ڈبلیو ایچ او ساری دنیا میں کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں مصروف ہے، اس کے فنڈز میں اضافہ کیا جانا چاہیے تھااس کی بجائے امریکی فیصلہ سمجھ سے بالا تر ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ آج امریکا سمیت ساری دنیا کورونا وائرس کی تباہ کاری روکنے میں بری طرح بے بس ہے یہ حقیقت پہلی مرتبہ اس شدت اور ہمہ گیر پیمانے پر بے نقاب ہوئی ہے کہ ترقی یافتہ کہلانے والے ملکوں میں بھی حفظانِ صحت کا نظام،ہیلتھ کیئر سسٹم(سوائے چین کے)حد درجہ ناقص اور کمزور تھا۔کورونا وائرس کے حوالے سے مناسب انداز میں مل کر کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔امریکی صدر اور ماہرینِ صحت اس خطرے کی وسعت اور نقصان پہنچانے کی قوت اور رفتار کا درست اندازہ لگانے میں ناکام رہے۔انہوں نے اسے چین کا اندرونی مسئلہ سمجھا اور مذاق کا نشانہ بناتے رہے۔لیکن جب کورونا وائرس نے امریکا میں عوام کو بے رحمی سے نشانہ بنانا شروع کیا تو امریکی صدر اور انتظامیہ کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ان کی سمجھ میں آ رہا کہ اس آفت کا راستہ کیسے روکیں؟امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی عادت کے مطابق بندر کی بلا طویلے کے سر ڈالنے کا راستہ اختیار کیا اور اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ”ڈبلیو ایچ او“پرسارا ملبہ ڈال دیا۔الزام لگایا کہ اس ادارے نے امریکا میں پیش بندی کی بجائے چین پر اپنی توجہ مرکوز کئے رکھی اور اس غفلت کے نتیجے میں آج امریکا بھاری جانی و مالی نقصان برداشت کر رہا ہے۔جبکہ سچ یہ ہے کہ امریکی نظامِ حکومت کی بنیاد دوسرے ملکوں کو خوف میں مبتلاء کرکے انہیں سینکڑوں ارب ڈالر کا بھاری فوجی اسلحہ بیچنے کے ایک نکاتی ایجنڈے پر رکھی گئی ہے۔ اسلحہ سازی کے سواکسی دوسری صنعت کی منصوبہ بندی نہیں کی۔امریکا نے عالمی سیاست میں پہلا قدم ہی جاپان کے دو شہروں (ہیروشیما اور ناگاساکی)پر ایٹم بم گراتے ہوئے رکھا۔امریکا نے دنیا پر پہلے روز ہی یہ واضح کر دیا تھا کہ وہ اپنے مفادات کی خاطر ظلم اور بربریت کی تمام حدیں پار کر سکتا ہے۔اسی شناخت کے ساتھ اقوام متحدہ میں اس نے بڑا حصہ لیا۔اور اسی نفسیات کے تحت75سال سے اس نے فوجی اسلحہ سازی کو اپنی معیشت کی بنیاد بنایا ہواہے اور دوسری صنعتوں کو اس نے ملکی معیشت میں کوئی کردار دینے کے بارے میں کبھی سنجیدگی سے سوچا ہی نہیں۔امریکی تھنک ٹینک آج تک یہی سمجھتا رہا ہے کہ اسلحہ سازی کے ذریعے وہ نہ صرف دنیا بھر کی دولت سمیٹ سکتے ہیں بلکہ اسلحے کا محتاج بنا کر ان پر سیاسی غلبہ بھی حاصل کر سکتے ہیں دوسرے ملکوں کو اپنا مطیع و فرماں بردار بنا سکتے ہیں اور اپنی اسی حکمت عملی کے تحت انہوں نے 75سال گزار لئے دوسرے ملکوں کو مختلف بہانوں سے جنگوں میں الجھائے رکھا۔اسرائیل اور فلسطین کا مسئلہ پیدا کرکے مشرقِ وسطیٰ میں اسلحے کی فروخت کا مستقل بندوبست کیااور اپنا وزن اسرئیل کے پلڑے میں ڈال کر عرب ممالک کو مطلوبہ خوف میں بھی مبتلا کئے رکھا کیونکہ اس کے بغیر اسلحہ کی فروخت مشکل ہو جاتی مگراس دوران انہوں نے یہ کبھی نہیں سوچا کہ کورونا وائرس جیسی ناگہانی آفت نے سر اٹھایا تو عوام کی جان و مال کا تحفظ کیسے کیا جائے گا؟چنانچہ کورونا کے سامنے وہ ہاتھ اٹھائے کھڑے ہیں کبھی چین کو اور کبھی ڈبلیو ایچ او کو کوس رہے ہیں۔انہیں گزشتہ 75برسوں میں ایک لمحے کے لئے یہ خیال نہیں آیا کہ زمین پر 24گھنٹے گولہ بارد برسانے کا نتیجہ کیا ہوگا؟ قدرتی توازن (ایکو سسٹم)بگاڑنے کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔انہوں نے یہ بھی فراموش کردیا کہ قدرت اپنے فیصلے کرنے میں ہمیشہ آزاد و خودمختار رہی ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر بار طاعون ہی پھیلے۔انفلوئنزہ جیسی تباہی پھیلانے اسی فیملی کا کوئی دوسرا ننھا سا وائرس انسانی جسم میں داخل ہو کر اسے اپنی افزائش کا مرکز بنا سکتا ہے۔ایک کورونا وائرس نہ صرف مقبوضہ انسانی جسم کو موت کے منہ تک لے جاتا ہے بلکہ اس دوران انتہائی تیز رفتاری سے صحت مند انسانوں تک منتقل ہو چکا ہوتا ہے۔امریکا کو آج اسی خطرناک صورت حال کا سامنا ہے۔اس کے 7 لاکھ کے لگ بھگ شہری کورونا وائرس کی لپیٹ میں آچکے ہیں 28ہزار سے زیادہ امریکی ہلاک ہو چکے ہیں ایک روز پہلے 24گھنٹوں میں مرنے والوں کی تعداد ڈھائی ہزار سے زائد تھی۔ البتہ اسی دوران چین واحد ملک ہے جس نے کورونا وائرس کی تباہ کاری کا راستہ روکا ہے۔کئی روز سے اس کا کوئی شہری کورونا وائرس کا شکار ہوکر موت کے منہ میں نہیں گیا۔یہ کارنامہ چین کی عوام دوست پالیسیوں کا مظہر ہے۔چین نے اسلحہ سازی کے ساتھ زندگی کے تمام شعبوں کو ترقی دی چند گھنٹوں میں ہزاروں مریضوں کی دیکھ بھال کرنے کی صلاحیت چین کے علاوہ شاید ہی کسی کے پاس ہو؟امریکی تھنک ٹینک اپنی غلط معاشی اور معاشرتی سوچ پر غور کرے انسان دوست پالیسی تیار کی جائے دنیا پر حکمرانی کا خیال دل سے نکالے امریکی سرحدوں میں جینے کی حکمت عملی وضع کرے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں