قرضوں کی ادائیگی میں آسانی

آج کا اداریہ
12اپریل کو وزیر اعظم عمران خان نے دنیا کے امیر ممالک اور مالیاتی اداروں سے اپیل کی تھی: ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کو کورونا وائرس کے تناظر میں خصوصی ریلیف دیا جائے تاکہ وہ اپنی تباہ حال معیشت کو ایک حد تک پیروں پر کھڑا کرسکیں۔جی20میں شامل ملکوں نے اس اپیل کا مثبت جواب دیا اور اگلے روز 76ملکوں کوقرضوں کی ادائیگی میں ایک سال کی چھوٹ دے دی۔پاکستان کورواں سال 12ارب ڈالر کی ادئیگی نہیں کرنا ہوگی۔اس کے علاوہ آئی ایم ایف کی طرف سے 1.4ارب ڈالر کے ایک نئے قرض کی منظوری بھی دی جائے گی۔ان اقدامات کے نتیجے میں پاکستان اپنی معیشت کو نئے حالات کے مطابق اگر درست سمت میں لے جانے کی منصوبہ بندی کرے توکوئی وجہ نہیں کہ بہت کم عرصے میں ایک مضبوط معیشت کے ساتھ اپنی نئی شناخت قائم کرنے کے قابل ہو سکتا ہے۔کورونا وائرس نے پاکستان پریورپی ملکوں کے برعکس ہلکا ہاتھ رکھا ہے۔ امریکا جیسی تباہی نہیں مچائی۔ برطانیہ جیساسلوک نہیں کیا۔برطانیہ میں اموات 13ہزار800کے قریب ہوئیں اس کے برعکس پاکستان میں صرف134 افراد کورونا کے ہاتھوں موت کا شکار ہوئے جو کہ نہ ہونے کے برابر ہے۔پاکستان میں (اگر سرکاری اطلاعات درست ہیں تو)7ہزار کرونا کے متأثرین کی موجودگی کو حوصلہ افزاء اور نیک شگون سمجھاجانا چاہیئے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وفاق نے کنسٹرکشن انڈسٹری اور اس سے جڑی ہوئی دیگر صنعتوں کو بھی کام کرنے کی اجازت دے دی ہے۔حکومت سندھ وفاق کے اس فیصلے سے اتفاق نہیں کر تی اس نے جمعہ کی نماز کے بڑے اجتماعات کی روک تھام کے لئے 12بجے سے3بجے تک سخت لاک ڈاؤن کا فیصلہ برقرار رکھا اورمفتی منیب الرحمٰن اور ان کے حامی علماء کو بھی راضی کر لیا کہ کم از کم اس جمعے کو سابق پابندیاں برقرار رکھی جائیں۔ادھر18اپریل کو ملک بھر کے علماء سے وزیراعظم عمران خان سے مشاورت بھی متوقع ہیں امید کی جانی چاہیئے کہ کوئی قابل قبول درمیانہ راستہ نکال لیا جائے گا۔علماء کی مجبوری یہ ہے کہ رمضان کا مہینہ ان کی آمدنی کا سب سے بڑا موقع فراہم کرتا ہے۔ مسلمانوں نے کئی صدیوں سے زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے اسی مہینے کو لازمی قرار دے رکھا ہے۔ دو مہینے رجب اور شعبان پہلے ہی کورونا وائرس کی نذر ہو چکے ہیں۔ یکم رمضان کو بینک زکوٰۃ کی کٹوتی کے لئے عام کاروباری سرگرمیاں بند رکھتے ہیں۔ اگر رمضان میں انہیں مسجدیں آباد کرنے کا موقع میسر نہ آیا تو مساجد اور مدارس ایک محتاط اندازے کے مطابق اپنی70فی صد آمدنی سے محروم ہو جائیں گے۔ تراویح کی نماز پڑھانے والے اور ان کی تلاوت کا جائزہ لینے کے لئے مقرر کئے جانے والے حفاظ کی بڑی تعداد بیروزگار ہو جائے گی۔علماء کی بے چینی اور اضطراب قابلِ فہم ہے۔مگر کورونا وائرس بھی ایک زندہ حقیقت ہے۔وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا یہ کہنا بجاطور پر درست دکھائی دیتا ہے کہ معیشت کو بگڑنے کے بعد سنوارا جا سکتا ہے لیکن کورونا سے مرجانے والے شخص کو دوبارہ زندہ نہیں کیا جا سکتا۔وفاق اگر مسجدِ نبویﷺ اور مسجدِ الحرام میں پنج وقتہ نماز اور جمعہ اور تراویح کی بندش کی دلیل دے کر علماء سے اسی رعایت کی درخواست کرے گا تب بھی بقول وزیرِ ریلوے شیخ رشید احمد ہم پاکستانیوں کی نفسیات دوسروں سے الگ ہے۔یہاں چھابڑی لگانے والی والی غریب بوڑھی عورت بھی برسوں اس لئے بچت کرتی ہے کہ روضہئ رسول محمد ﷺ اور خانہ کعبہ کی زیارت کر سکے۔ افطاری تقسیم کرنا بھی ایک روایت کا درجہ اختیار کر چکی ہے۔ لیکن کورونا وائرس کی تباہی سے آنکھیں بند رکھنا آسان نہیں۔عام طور پر کہا جاتا ہے کہ حکومتی اعدادوشمار قابلِ اعتماد نہیں۔اول تو انتہائی قلیل تعدادمیں افراد کا ٹیسٹ کیا جانااپنی جگہ بہت بڑا سوال ہے کہ اسے 22کروڑ آبادی پر لاگو کرنا عقلی اعتبار سے درست نہیں دوسرے اس قلیل تعداد کے 10فیصد کا ٹیسٹ مثبت آنا بھی رونگٹے کھڑے کرنے کے لئے کافی ہے۔22کروڑ کا 10فیصد 2کروڑ 20لاکھ ہوگا۔اسے کون اور کیسے سنبھالے گا؟کراچی کے اسپتالوں میں سینکڑوں کی تعداد میں عمر رسیدہ مریضوں کی ایسی حالت میں آمد کہ وہ اسپتال پہنچنے سے پہلے دم توڑ چکے ہوتے ہیں یا قریب المرگ ہوتے ہیں۔ایدھی ٹرسٹ کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال اس عرصے میں غسل کے لئے لائے جانے والی میتوں کے مقابلے میں یہ تعداد کہیں زیادہ ہے۔ممکن ہے یہ لوگ کرونا کے مریض نہ ہوں اسپتالوں میں او پی ڈی کی بندش کے باعث عام امراض میں مبتلاء رہے ہوں مگر ان کی موت کا سبب معلوم کرنا اسپتال والوں نے کیوں ضروری نہیں سمجھا؟ اس سوال کا جواب کون دے گا؟ اسپتال انتظامیہ؟ صوبائی انتظامیہ؟ اس لئے کہ 18ویں ترمیم کے بعد صحت کا شعبہ صوبائی اختیار میں جا چکا ہے۔ویسے بھی عالمی وباء کی موجودگی میں اموات اسی تناظر میں دیکھ جانا چاہیے۔اسے مذہبی یا علاقائی دائروں بند ہو کر دیکھنا درست نہیں۔ کوروناوائرس رنگ، نسل، زبان، سیاسی خیالات اور مذہب کو خاطر میں لائے بغیرجو سامنے آئے شکار کرتا ہے اس کامقابلہ بھی ہرقسم کے تعصب سے بالا تر ہوکرسب کو کرناچاہیے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں