نان ایشوز پر شور مچاؤ پالیسی کچھ نہیں دے گی

جو ملک اوراس کے عوام مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوں،اس ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں دیگر تمام جماعتوں کے ساتھ مل کر مہنگائی کے خلاف احتجاجی تحریک چلائیں اور عوام کی بڑی تعداد گھروں سے نہ نکلے تواحتجاجی تحریک کا اعلان کرنے والی قیادت کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیئے خرابی کہاں ہے؟۔۔۔ پالیسی میں؟۔۔۔ کال دینے کی ٹائمنگ میں؟۔۔۔ یا عوامی موڈ کو سمجھنے میں روا رکھی جانے والی کسی اہم اور بنیادی غلطی میں؟۔۔۔یاد رہے مذکورہ جماعتوں کی جانب سے احتجاج کی کال دینے کے بعد قیادت کا اپنے چند کارکنوں کے ساتھ سڑکوں آنا اور عوام کو اپنے سامنے موجود نہ پانایہ ثابت کرتا ہے کہ عوام نے کال مسترد کر دی ہے۔سیاسی قیادت عوامی موڈ کو سمجھنے میں ناکام رہی ہے۔احتجاجی پالیسی تیار کرنے والوں نے معاشرتی مسائل کی شدت اور حدت کا درست اندازہ نہیں لگایا۔انہوں نے اپنے طور پر فرض کر لیا ہے کہ عوام نجی محفلوں میں، ہوٹلوں پر چائے پینے کے دوران اور سڑک کنارے چلتے ہوئے ملکی اور عالمی صورت حال پر تبادلہ خیال نہیں کرتے،عوام مہنگائی کے بارے میں خود کچھ نہیں سوچتے، عوام کا ذہن ماؤف ہے، کورے کاغذ کی طرح خالی ہے،ان کے سامنے کھڑے ہوکرسیاسی رہنما جو کہیں وہ اسے سچ مان کر حکومت مخالف نعرے لگائیں گے اور موجودہ حکومت کو کوستے ہوئے اپنے گھروں کولوٹ جائیں گے۔جلسوں جلوسوں میں عوام کا نہ آنا قابلِ توجہ ہے۔ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔احتجاج کی کال دینے والی قیادت کو مل بیٹھ کر اپنی حکمت عملی کا جائزہ لینا چاہیئے اور یہ سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیئے کہ عوام نے پہاڑ جیسی مہنگائی کے باوجود جلسوں جلوسوں میں آنے سے کیوں گریز کیا؟ گھروں سے کیوں نہیں نکلے؟کال دینے والی سیاسی قیادت کو یقینا معلوم ہوگا کہ ہم خیال افراد کو سامنے بٹھا کر، ان سے اپنی پسند کے نعرے لگوا کراور تھوڑی بہت تالیاں بجوا کر ملکی سطح پر بڑی تبدیلی لانا ممکن نہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ وہ تسلیم کر لیں کہ عوام مہنگائی کے اصل اسباب سے واقف ہیں۔ان کے پاس اپنا ذہن ہے۔آزادانہ سوچتے ہیں۔یہ 90کی دہائی نہیں۔ آج میدان میں دو کی بجائے تین سیاسی جماعتیں فعال ہیں، سرگرم ہیں۔اقتدار تیسری جماعت کے پاس ہے۔ جلسہ جلسہ کھیل کراداروں کو خوفزدہ کرنے کی پالیسی تا حال مطلوبہ مقاصد نہیں دے سکی۔ سوا تین سال بیت گئے ہیں۔اتنا وقت گزر چکا مگر لانے والے مایوس نہیں ہوئے۔علاوہ ازیں حکومت مخالف سوچ کی حامل جماعتیں خود ایک پیج پر نہیں، بلکہ ملک کی سب سے بڑی پارٹی کی اپنی حالت یہ ہے کہ ایک دھڑا جلسے میں نعرے لگواتا ہے اور دوسرے جلسے کے انعقاد سے پہلے ہی پارٹی کے صدر میڈیا کے روبروان نعروں اور نعرے لگانے والے کارکن سے لاتعلقی کا اظہار کرتے دیکھے جاتے ہیں۔ عوام ایسے ماحول میں گھروں سے نہیں نکلا کرتے۔الیکٹ ایبلز(بار بار جیتنے والے امیدوار) جلسوں میں نظر نہ آئیں تو عوام سمجھ جاتے ہیں مستقبل قریب میں ان سے رائے نہیں مانگی جا رہی۔ ایک صوبے میں بلدیاتی انتخابات کا شیڈول جاری کردیا جائے تو دوسرے صوبوں کو یہ پیغام مل جاتا ہے کہ پہلے بلدیاتی انتخابات کی تیاری کی جائے، صوبائی اور وفاقی سطح پر انتخابات کا وقت ابھی دور ہے۔ بلدیاتی انتخابات صوبائی مسئلہ ہے۔عدالت میں پیشیاں بھگتنے کے بعد ہی ان کا انعقاد ممکن ہوتا ہے۔خوشدلی سے کبھی انتخابات نہیں کرائے جاتے۔خیبر پختونخوا میں بھی بلین ٹری منصوبے کے حوالے سے الزامات کی دھند چھٹنے کا انتظار کیا گیا ہے۔عالمی برادری سے شاباشی ملنے کے بعد شیڈول جاری ہوا۔بھنگ کی کاشت کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے، حکومت دعویٰ کر رہی ہے بھنگ سے فی ایکڑ ایک لاکھ ڈالر (پاکستانی کرنسی میں ایک کروڑ 70 لاکھ روپے)ملیں گے۔بڑے پیمانے پر کاشت ملکی آمدنی میں خاطرخواہ اضافہ کر سکتی ہے۔بھنگ جیسے پودے کو آمدنی بنانے کا اچھوتاخیال پی ٹی آئی کی قیادت کے ذہن میں آیا، اپوزیشن نے امکان بھر مذاق اڑایا لیکن اس کے فارم وجود میں آچکے ہیں،وزیر سائنس و ٹیکنالوجی دورے کرنے لگے ہیں۔ماضی میں اس وزارت کا نام بھی لوگوں نے نہیں سنا تھا۔سوئی سے جہاز تک دوسرے ملکوں سے منگوایاجاتا تھا۔بلکہ یہ جملہ ہر شخص کی زبان پر تھا:”جو ملک سوئی نہیں بناسکتا وہ اور کیا بنائے گا؟“،فارم دیکھنے کے بعد مناسب نہیں کہ بھنگ کی پیداوار کو لطیفوں میں اڑایا جائے، کل بھنگ کے یہی فارم قرضہ اتارنے میں مددگار ہوں گے توعوام لطیفے سنانے والوں کویاددلائیں گے۔دیکھو بھنگ ڈالر دینے لگی ہے۔سعودی عرب نے گرین انیشی ایٹو کانفرنس میں پاکستان کو شرکت کی دعوت شجرکاری مہم میں پیشرفت دیکھ کر ہی دی ہے۔ اس منصوبے پر39ارب ریال خرچ ہوں گے‘15فیصد سعودی عرب ادا کرے گا۔50ارب درخت لگائے جائیں گے۔جبکہ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو ماحولیاتی تبدیلیوں سے تحفظ کے لئے 44 فیصد سرمایہ کاری کر رہا ہے۔دھیان رہے پی ٹی آئی اگر اپنے دعووں کی تکمیل کے قریب پہنچ جاتی ہے تو اپوزیشن کے لئے اس کا مقابلہ کرنا مزید مشکل ہو جائے گا۔ایسے حالات میں عوام کے سامنے ایک نئی اور توانا پالیسی لانے کی ضرورت ہے، محض نعرے بازی بے نتیجہ رہے گی۔سوڈان میں فوج کے اقتدار سنبھالنے سے یہ امید نہیں کی جا سکتی کہ جلد ہی یہ عمل پاکستان میں بھی دہرایاجائے گا۔ پاکستان کے معروضی حالات سوڈان سے مختلف ہیں۔ دوسرے ملکوں میں حکومتیں تبدیل کرنے والا امریکہ خود نئے عالمی منظر سے پریشان ہے۔شمالی کوریا نے حال ہی میں جو تجربات کئے ہیں ان سے گھبرا کر غیر مشروط مذاکرات کی اپیل کرنے لگا ہے۔امریکی ترجمان یقین دہانی کرا رہاہے کہ شمالی کوریا کے خلاف ان کی کوئی مخاصمانہ پالیسی نہیں۔پریشاں حال امریکہ سے یہ توقع کرنا کہ
پاکستان میں اپنی مرضی کی حکومت لا سکتا ہے،بچگانہ سوچ ہوگی۔عوام کی مدد حاصل کئے بغیر اقتدار میں آنے کا خواب پورا نہیں ہوگا۔عوام کی حمایت فرسودہ نعروں سے نہیں ملے گی۔سوا تین سال اسی غلط سوچ کی نذر ہو چکے ہیں۔اس سے چھٹکاراحاصل نہ کیا گیا تو یہی ناکامی گھیرے رہی گی۔کسی فوجی افسر کے خلاف نعرے لگواکر وزارت عظمیٰ کی کرسی تک پہنچنے کا زمانہ اب نہیں رہا۔دانشمندی سے کام لیا جائے، عوام کوپرانے نعرے متأثر نہیں کرتے، عوام کی نبض پر ہاتھ رکھ کر ان کی مرضی اور پسند تک پہنچا جائے۔عوام کی ناراضگی کے اسباب تلاش کئے جائیں۔عوام کا رویہ سب کچھ بیان کر رہا ہے۔عوام سے پہلے الیکٹ ایبلز کو باہر نکلنا ہوگا۔یہ حقیقت فراموش نہ کی جائے کہ بارش کی آمد کے آثار نہ ہوں تو پرندے نیچی پرواز نہیں کرتے، چیونٹیاں بلوں سے نہیں نکلتیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں