سارا نظام تشکیل نو کا متقاضی ہے

اداریہ
عدالت عظمیٰ نے اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے ایک بار پھر حکومت کے متعلقہ اداروں کو طلب کر لیا ہے تاکہ مالیاتی بدعنوانی کو ممکنہ حد تک روکا جا سکے۔ ان سے پوچھا جا رہا ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے کروڑوں پاکستانی لاک ڈاؤن کی وجہ سے اپنے گھروں میں محصورہیں۔ ان تک راشن یا امدادی رقوم پہنچانے کا کیا طریقہئ کار وضع کیاگیا ہے؟ بتایا گیا پی ٹی آئی کی حکومت کے نوساختہ کمپیوٹرائزڈ پروگرام کے ذریعے ایک کروڑ 20لاکھ خاندانوں میں 12ہزار فی خاندان کی فراہمی جاری ہے جیسے سوالات زیر بحث ہیں۔ عدالت کی جانب سے طلب کردہ رپورٹس کے بارے میں عدم اطمینان کا اظہاریہ سمجھنے کے لئے کافی ہے کہ سارا نظام صرف افسر شاہی کو پالنے کے لئے تشکیل دیا گیاتھا۔زکوٰۃ اور بیت المال بھی افسران کے اخراجات پورے کرنے میں ہی صرف ہو جاتا ہے۔لوگوں سے وصول کردہ زکوٰۃ اور دیگر خیراتی فنڈزاسٹاف کے ڈی اے ٹی اے ہوائی سفر اور دیگر سہولتوں کے نام پر کھیپ جاتے ہیں۔معزز ججز سمجھتے ہیں کہ وصول شدہ زکوٰۃ صرف بیواؤں یتیموں، مساکین، مسافروں اور قیدیوں پر خرچ ہونا چاہیے جن کا ذکر قرآن میں موجود ہے۔انہوں نے سہون شریف کے مزار کی چھت اڑنے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ محکمہ زکوٰۃ کی جانب سے اس کی اطلاع تک نہیں دی گئی،مزاروں کی حالت مخدوش ہے،لگتا ہے مرمت نہ کرائی گئی تو یہ کسی وقت بھی گر سکتے ہیں۔ ساری رقم اسٹاف اور افسران کی تنخواہوں اور دیگر مصارف پر خرچ ہوجائے تو مزارات کی مرمت کیسے ممکن ہے؟ اسلامی نظریاتی کونسل اور معروف عالمِ دین مولانامفتی تقی عثمانی نے اسٹاف کی تنخواہوں کی ادائیگی کو جائز قرار دیا ہے۔
اس حوالے سے معزز عدلیہ کو چاہیے کہ مذکور بالا آئینی ادارے(اسلامی نظریاتی کونسل) سے یہ پوچھ لیا جائے کہ ایک سانس میں یا یکدم، ثالثی کا موقع دیئے بغیردی گئی تین طلاق کے بارے میں اس ادارے کی کارکردگی کیا رہی؟ یہ افسوسناک حقیقت سامنے آئے گی کہ اپنے قیام 1973سے لے کر 2019تک یہ ادارہ اس اہم معاشرتی اور دینی مسئلے کی طرف سے اپنی آنکھیں بند کئے رہا۔ اس ادارے کوہوش اس وقت آیا جب انڈین سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے اپنا اکثریتی فیصلہ سنایا۔ واضح رہے کہ اس پانچ رکنی لارجر بینچ میں پانچ مختلف ادیان(مسلم، سکھ، پارسی، ہندو اور کیتھولک عیسائی)سے تعلق رکھنے والے معزز ججز شامل تھے۔مسلم اور سکھ ججز نے اپنے فیصلے میں ایک ساتھ دی جانے والی تین طلاقوں کو جائز اور حتمی قرار دیا جبکہ پارسی، ہندو اور کیتھولک کرسچن ججز نے اپنے اکثریتی فیصلے میں لکھا کہ دنیا میں ایسا کوئی معاہدہ کرنا ممکن ہی نہیں جس میں اختلاف پیدا ہونے کی صورت میں arbitration ثالثی کی گنجائش نہ ہو۔اسے خوش قسمتی کی بجائے دکھ اور بدقسمتی ہی کہہ سکتے ہیں کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین اور دیگر ممبر صاحبان نے انڈین سپریم کورٹ کے مذکورہ اکثریتی فیصلے کے بعد اپنی سفارشات تیار کیں اور پارلیمنٹ کو بھجوائیں جن میں ایک ساتھ تین طلاقیں دینا جرم تجویز کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے سے پہلے اسلامی نظریاتی کونسل کیوں خاموش رہی؟ اس نے اپنی تجاویز مرتب کرنے کے لئے اتنا طویل انتظار کیوں کیا؟ یہ خاموشی بلا سبب نہیں تھی۔ ان اسباب کا کھوج لگائے بغیر اسلامی نظریاتی کونسل اور مولانا تقی عثمانی زکوٰۃ سے اور اللہ کے نام پر دی گئی رقوم سے محکمہ اوقاف کے افسران کی تنخواہوں کی ادائیگی کے بارے درست رائے نہیں دے سکیں گے۔
سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے سنجیدہ سوالات اٹھائے ہیں اربوں روپے مستحقین تک پہنچاناایک معقول طریقہئ کار کا تقاضہ کرتا ہے۔معزز عدلیہ کے پاس رپورٹس اس حوالے سے متعلقہ افسران اور اسٹاف کی بے خبری اپنی جگہ خود دستاویزی ثبوت ہیں کہ سب کچھ ہوا میں کیا جارہا ہے۔متضاد دعوے اور بے جان رپورٹس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اندرونِ خانہ کیا کیا جارہا ہے؟13سالہ پرانے اور ناقابل استعمال راشن کی تقسیم بھی کرپشن کی ایک داستان ہے۔13سال پہلے کسی آفت کے موقع پر یہ امدادی راشن تقسیم کنندگان تک پہنچا ہو گا جو بروقت تقسیم نہیں کیا گیا۔یہ رویہ جرم کے مترادف ہے۔مجرموں کا کھوج لگایا جائے اور انہیں قرار واقعی سزا دی جائے،تاکہ آئندہ اس کا اعادہ نہ ہو سکے۔آج کمپیوٹر کا دور ہے۔کم سے کم انسانی مداخلت درکار ہوتی ہے کسی غلطی کے بغیرمستحقین کی فہرست مرتب کرنا ممکن ہو گیا ہے۔اس کام کو پہلے کبھی اتنی سنجیدگی سے نہیں دیکھا گیا معزز عدلیہ نے اپنے صوابدیدی اختیارات کے تحت معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے امید کی جانی چاہیے کہ اسے ادھورا اور نامکمل نہیں چھوڑا جائے گا۔ معلوم ہوگیا کہ سارا نظام ہی اصلاح طلب ہے۔”اعمال“ کے نام پر ساری زکوٰۃ کھا جانے کی تائید نہیں کی جا سکتی۔خود کار آڈٹ آف اسٹیٹ نظام وضع کیا جائے انسانی مداخلت ممکنہ حد تک ختم کی جائے سب ٹھیک ہوسکتاہے عدلیہ چاہے تواصلاح ممکن ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں