معاشرے میں طبقاتی مفادات کی جنگ

طبقات کے درمیان اپنے مفادات کی جنگ کسی نہ کسی شکل میں ہمیشہ جاری رہتی ہے۔صنعت کار خود کو جاگیردار سے اپنے علم، مشینری اور دولت کمانے کی لامحدود صلاحیت کے باعث افضل سمجھتے ہیں، لیکن قانون سازی کی قوت جاگیردار کے پاس ہوتی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زراعت کا شعبہ آبادی اور رقبے کے لحاظ سے شہری آبادی سے بڑا ہوتا ہے۔اس کی اسمبلی میں نمائندگی اسی تناسب میں زیادہ ہوتی ہے۔قانون سازی جاگیردارکی مرضی کے تابع ہوتی ہے۔صنعت کار اپنی برتری چاہتے ہیں، مگر وزارتوں میں جاگیردار بیٹھا ہے۔جاگیردار کی سوچ اور مفادات محدود ہیں، اپنا جاہ جلال برقرار رکھتے ہوئے ٹھاٹ باٹ کی زندگی سے آگے جاگیردار نہیں سوچتا۔جبکہ صنعتکسار کو عالمی منڈی میں اپنی مصنوعات بیچنے کے لئے مسابقتی ماحول ملتا ہے۔اس کی ضرورتیں اور تقاضے مختلف ہیں۔اسے سستی بجلی، ٹیکسوں میں چھوٹ، اور اپنے ملک میں غیر ملکی مصنوعات کی بھرمار کو روکنا ضروری ہوتا ہے۔ سوچ کا یہ تضاد معاشرتی کشمکش کی شکل میں جاری رہتا ہے۔پاکستان میں بھی یہ کشمکش روزِ اول سے جاری ہے۔بلکہ بعض لوگوں کے خیال میں قیام پاکستان بھی اسی کشمکش کانتیجہ ہے۔برلا ٹاٹا جیسے بڑے صنعتکاروں کا براہ راست مقابلہ مشکل تھا، مسلمان صنعتکاروں کو علیحدہ وطن درکار تھا،انہوں نے جیسے تیسے حاصل کر لیا۔مگر قیام پاکستان کے ساتھ ہی نیاتضاد سامنے آگیا اور مقامی مسلمان جاگیردار اورمسلمان صنعت کار ایک دوسرے سے لڑنے لگے۔کراچی صوبے کا مطالبہ اسی کشمکش کا نعرہ بنا، جو آج تک وقتاً فوقتاً سنائی دیتارہتا ہے۔اس تناظر میں یہ بھی یاد رہے کہ جن دنوں برطانیہ ہانگ کانگ سے رخصت ہورہا تھا اور ہانگ کانگ پر چین کا جھنڈا لہرانے کے دن قریب آرہے تھے، کراچی میں نسلی اور لسانی فسادات عروج پر تھے، صنعتکار یہ سمجھتے تھے کہ ہانگ کانگ میں چین اپنے قوانین نافذ کرے گاچنانچہ وہ فری پورٹ کی سہولیات سے محروم ہو جائیں گے،انہیں ایک نئی فری پورٹ کی ضرورت درپیش تھی۔ لیکن چین نے ”ون کنٹری‘ ٹو سسٹم“ کی نئی اصطلاح متعارف کرادی اور ہانگ کانگ بدستور فری پورٹ رہاتو نئی فری پورٹ کی تلاش ختم ہو گئی۔ کراچی میں فسادات کے دوران کلفٹن کی زمین کے دام آسمان کو چھورہے تھے، یکدم نیچے آگئے،سرمایہ کاروں کی رقم ڈوب گئی۔ ”آزاد کراچی“ کا جھنڈا لہرانے کی تاریخیں سنائی دینابند ہو گئیں۔اس سے سمجھا جا سکتا ہے کہ طبقاتی کشمکش کتنے دورس نتائج کی حامل ہوتی ہے اورکتنی بے رحمی سے لڑی جاتی ہے۔اب چین اور امریکہ ایک دوسرے کے خلاف نئی صف بندی میں مصروف ہیں، اس کے محرکات میں سرِ فہرست یہی منڈیوں کی توسیع کا جذبہ کارفرما ہے۔ امریکہ نے گوام اور آسٹریلیامیں فوجی اڈے قائم کرنے کا اعلان بھی اسی تناظر میں کیا ہے۔ورنہ 31اگست 2021کو بدحواسی میں کابل سے نکلنے کی رسوائی کے فوراً بعد اس اعلان کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ جو ملک 20برس تک افغان طالبان کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں بری طرح ناکام رہا،وہ چین جیسی عسکری اور معاشی قوت کو بلاسبب تو نہیں للکار سکتا۔کوئی مجبوری ہوگی جس سے جان چھڑانے کے لئے امریکہ کو ایک نئے محاذ پر جانا پڑا۔بظاہر یہیلگتا ہے کہ امریکی مقتدرہ ذہنی اعتبار سے آج تک 1945کی دہائی میں پھنسی ہوئی ہے۔اس کا ماننا ہے کہ اسلحے کی صنعت اس کے لئے زیادہ منافع بخش ہے اور اس کے بجٹ کا بڑا بوجھ عرصہ دراز سے اسلحہ سازی کی صنعت نے اٹھا رکھا ہے۔اسی فکری پسماندگی کے نتیجے میں خلیجی ریاستیں راکھ کاڈھیر بنا دی گئیں۔اسرائیل کے ناز نخرے امریکہ کو اٹھانے پڑے۔ناقدین کوافسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے امریکی تھنک ٹینکس نے ویت نام کی شکست سے کابل سے انخلاء تک کوئی سبق نہیں سیکھا۔آج بھی اسلحہ بیچ کر امریکی بجٹ کو سہارا دینا چاہتا ہے۔جبکہ سیاست کاادنیٰ طالب علم بھی جانتا ہے کہ دھونس اور دھاندلی کسی ملک کو دیر تک معاشی میدان میں مددگار نہیں ہو سکتی۔امریکہ نے چین کو نظرانداز کرکے تائیوان کو مجوزہ کانفرنس میں مدعو کیا ہے۔اس اقدام سے وہ کیا مقاصد حاصل کرے گا، جلد ہی دنیا دیکھ لے گی۔امریکہ نے دنیا کے بڑے حصے پر گزشتہ سات دہائیوں تک جنگ مسلط کرکے پایا کم اور کھویا زیادہ ہے،مگر ابھی اس نے اس حوالے سے اپنی بیلنس شیٹ تیار نہیں کی۔اور اگر تیارکر لی ہے تو اسے عوام کے سامنے لانے کی ہمت نہیں کر رہا۔عوامی رد عمل سے خوف زدہ ہے۔اگرتائیوان کو جنگ میں اپنا مہرہ بناکر امریکی تھنک ٹینک کچھ پانے کی آس لگائے بیٹھے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ آسٹریلیااور بھارت امریکہ کے آلہئ کار بن کر صدام حسین جیسا کردار ادا کریں گے تو بہت کم مدت میں انہیں معلوم ہو جائے گا وہ کتنے بڑے خواب دیکھ رہے تھے اور آنکھ کھلتے ہی منظر دوسرا تھا؟اس مرتبہ ان کا مد مقابل امریکی پٹھو شہنشاہ رضا شاہ پہلوی کا چھوڑا ہوا ایران جیسا خانہ جنگی کی باقیات سمیٹنے والا ملک نہیں،چین جیساتواناملک ہے۔امریکی ایجنسیاں بھی اس بارے امریکی حکومت کو خبردار کر رہی ہیں کہ اس آگ میں کودنا خود امریکہ کے لئے تباہ کن ہوگا۔ بھارت نے میزائل شکن سسٹم روس سے خریدا ہے،چین کے خلاف استعمال نہیں کر سکے گا۔آج روس اور چین ایک ہی کیمپ میں ہیں۔ پاکستان کے لئے بھی امریکہ کے کسی do moreکی تعمیل ممکن نہیں رہی،چینی کیمپ کا اہم اتحادی ہے۔ چین مخالف قوتوں کا فرنٹ میں بن کر کوئی بڑا کردار اداکرے گا، اس کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔اگر امریکہ ایسی امید کئے ہوئے ہے تواسے ایک بار سے زائد سوچنے کی ضرورت
ہے۔افغانستان کے نئے منظر میں No moreپاکستان کی خارجہ پالیسی کا مرکزی نکتہ بن چکا ہے۔امریکی مقتدرہ ماضی کے جنگی جنون سے باہر نکلے، بصورت دیگر اس کے مؤرخ بھی امریکہ کے عروج و زوال کی داستان لکھتے نظر آئیں گے۔امریکہ داخلی محاذ پر بھی مسائل کا شکار ہے۔نسلی منافرت سر فہرست ہے۔امریکی مقتدرہ کو یاد ہوگا،امریکی پارلیمنٹ پر حملہ رواں سال کے اوائل میں کیا گیا تھا۔ غیر دانشمندانہ اقدامات سے یہ توقع نہ وابستہ کی جائے کہ اس بار منفی اقدامات کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔یہ حقیقت فراموش نہ کی جائے کہ تائیوان کو چین اپنی ریاست کا حصہ مانتا ہے، اور بھارت جیسی کوئی غلطی کی گئی تو لداخ جیسی صورت حال پیدا ہوگی،کم و بیش ویسا ہی رد عمل سامنے آئے گا،دہلی والوں کی زبان میں:’ابھی بیٹی گھر میں ہے‘۔امریکی فوجی چین کی سرحد پر افغانستان کی نسبت زیادہ غیر محفوظ ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں