مذہب کے نام پر دہشت گردی کب تک؟

سیالکوٹ (وزیر آباددھرنے والے مقام کے قریب واقع)اسپورٹس گارمنٹ تیار کرنے والی فیکٹری کے سری لنکن منیجرپرانتھا کماراکو ایک مذہبی سلوگن یا عبارت پر مشتمل دیوار پر سے اتارنے پرمشتعل ہو کر ڈنڈوں، پتھروں،لاتوں اورمکوں سے اس بری طرح زدو کوب کیا کہ اس کی موت واقع ہو گئی۔ ظالموں نے اس کی موت کے بعد بھی اپنا ظلم اور بربریت جاری رکھی۔ لاش کو گھسیٹتے ہوئے سڑک پر لے گئے،لاش کی نہ صرف بے حرمتی کی بلکہ اسے نذرِ آتش بھی کردیا۔پولیس مشتعل ہجوم سے غیر ملکی منیجر کو بوجوہ بچانے میں ناکام رہی۔ دنیا و مافیہا سے بے خبرفیکٹری ملازمین کو دین کے نام پر جو سکھا دیا ہے وہ آنکھیں اور ذہن بند کرکے سنی سنائی باتوں پر مبنی اپنے محدود اور ناقص علم کو ہی سب کچھ مان لیا ہے۔یہ لوگ قرآن کی آیات اور اَللہ کے واضح احکام کو دین کا حصہ ہی نہیں سمجھتے۔3دسمبر2021کو جو کچھ کیا ہے اسی ظلم و بربریت کو ”اَللہ کا دین“قراردیتے ہیں۔حالانکہ انہیں ایک مہذب شہری کی حیثیت سے ہجوم کو اس حقیقت کا علم ہونا چاہیئے تھا کہ ملکی قانون اور بین الاقوامی ضابطے انہیں یہ اختیار نہیں دیتے کہ اپنی فیکٹری کے منیجر کے ساتھ ایسا بھیانک سلوک کریں۔اگر ان کے خیال میں فیکٹری منیجر نے دانستہ یا نادانستہ کوئی ایسا غلط کام یا جرم کر لیا تھا جو اسے نہیں کرنا چاہیئے تھا،تب بھی انہیں قانون کے مطابقاس معاملے کو بااختیار اور مجاز اداروں کے سامنے رکھنا چاہیئے تھا۔کم از کم اپنے ان علماء کو اطلاع دیتے (جنہیں وہ ”عالم“ مانتے ہیں)اور پھر علماء اپنی بصیرت اور فہم و فراست سے کوئی مناسب حل تلاش کرتے۔وزیراعظم کے علاوہ تحریک لبیک پاکستان کی قیادت نے بھی اس نازیبا اقدام کی دو ٹوک الفاظ میں مذمت کی ہے۔اسلام سمیت دنیا کا کوئی مذہب لاش کو گھسیٹنے اور،لاش کو ٹھوکریں مارنے،اور لاش پر پتھر برسانے اور آگ لگانے کی اجازت نہیں دیتا۔نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ فیکٹری ملازمین نے اپنی ناقص، ادھوری اور نامکمل دینی معلومات کے باعث درست راستہ اختیار نہیں، انہوں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ ان کا منیجر غیر ملکی ہے۔غیر مسلم دنیا پہلے ہی مسلمانوں کے خلاف یہ رائے رکھتی ہے کہ مسلمان اپنے دینی عقائد کے باعث دہشت گرد ہیں۔ اقوام متحدہ کے رکن ممالک نے القاعدہ اور داعش جیسی تنظیموں کی سرگرمیاں دیکھ کر یہ رائے قائم کی ہے۔علماء سوچیں کہ وحشیانہ اقدام سے پہلے ہجوم کو قرآن کی سورۃ الانبیاء آیت107:
”اَللہ نے محمد ﷺ کو دنیا میں رحمت بنا کر بھیجا ہے“۔
کیوں یاد نہیں رہی۔اب وقت آگیا ہے کہ اس قسم کی لاقانونیت کا راستہ روکنے کے لئے ٹھوس اور نظر آنے والے اقدامات کئے جائیں۔ مذہب کی آڑ میں ہر دوسرے تیسرے مہینے بدامنی پھیلانے کی اجازت نہ دی جا ئے۔ فیکٹری ملازمین کو بالخصوص ایسے اقدامات سے دور رہنا چاہیئے جو ایک جانب قرآنی تعلیمات کے منافی ہیں اور دوسری جانب ملکی قوانین بھی اپنی انتظامیہ سے اس قسم کی بدسلوکی کا حق دیتے ہیں۔اس مشتعل ہجوم کو علم ہونا چاہیئے تھا کہ سری لنکن حکومت کے پاکستانی مسلمانوں پر پہلے ہی احسانات ہیں:سری لنکن وزیر برائے عوامی تحفظ سارتھ ویرا سکیرا نے برقع پہنے کو شدت پسندی قرار دیتے ہوئے ملک بھر میں برقع پہننے پر پابندی عائد کردی تھی اس کے علاوہ ہزار سے زائد مدرسے بھی بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔وزیر برائے عوامی تحفظ نے کہا تھا: اس بات کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ کوئی بھی اپنی مرضی سے اسکول کھول لے اور جو من چاہے پڑھائے۔ انہوں نے مزیدکہا تھاکہ ملک میں پہلے بہت کم خواتین برقع پہنتی تھیں۔لیکن اب اس رجحان میں خطرناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے۔جو اس بات کی نشانی ہے کہ ملک میں انتہا پسندی بڑھ رہی ہے جس سے ملکی سلامتی کو خطرہ ہے۔یاد رہے کہ سری لنکن حکومت نے وزیر اعظم عمران خان کے دورے (2020)کے موقع پر وزیر اعظم کی درخواست پر کورونا سے مرنے والے مسلمانوں کی لاشوں کو جلانے کا حکمنامہ واپس لے لیا تھا۔ اس کے معنے یہی ہوتے ہیں کہ سری لنکن حکومت نے اپنی ضد نہیں کی، پاکستان کی دلیل تسلیم کر لی۔سری لنکن وزیرکا یہ کہنا بھی اپنی جگہ درست تھا کہ پہلے بہت کم مسلم خواتین برقع پہنتی تھیں، یہ رجحان حالیہ برسوں میں تیزی سے بڑھا ہے۔ خصوصاً القاعدہ اور داعش جیسی شدت پسند تنظیموں کی تشکیل کے بعد اس رجحان میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اوریہ بھی حقیقت ہے پاکستان اورسری لنکاسمیت دنیا بھر میں ایسٹر اور کرسمس کے مواقع پر چرچوں اور ہوٹلوں پر حملے تشویشناک حد تک بڑھ گئے تھے۔اسلامو فوبیا کی شکل میں اس کا ردعمل فطری امر ہے۔داعش نے جو مظالم ڈھائے ہیں، لوگوں کو قطار میں کھڑا کر کے سر قلم کئے ہیں۔ اس کی نظیر چنگیز خان اور ہلاکو کے دور میں ملتی ہے۔ آج کی مہذب دنیا میں کوئی ذی ہوش شخص چنگیزی اقدامات کی تعریف نہیں کرتا۔مسلمانوں کی بڑی کمزوری یہ ہے کہ ان کے پاس دینی مسائل کے بارے میں سوچ بچارکرنے والاایسا ادارہ نہیں جسے عالمی سطح پر تسلیم کیا جاتا ہو۔اور اس کی دی ہوئی گائیڈ لائن پر علاقائی اور محلے کی مساجد بھی عمل کریں۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب بیت اللہ اور مسجد نبوی کا خادم ہونے کے باوجودساری دنیا کے مسلمانوں کا نمائندہ نہیں،بلکہ ایک فرقے(وہابی/اہلِ حدیث) کا نمائندہ بن کر رہ گیا ہے۔ایران دوسرے فرقے (شیعہ)والی سوچ کے حامل ملکوں کا نمائندہ ہے۔آج تک دونوں مسالک کے علماء نے اس تفرقے کے خاتمے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔تمام فرقے زبانی طور پر دعویٰ کرتے ہیں کہ دین اسلام کی بنیادی الہامی کتاب قرآن ہے۔ مگرعملی طور پر یہ سچ نہیں۔حالانکہ مسلمانوں کی خوش قسمتی ہے کہ قرآن اپنی اصل حالت میں آج بھی ہر جگہ با آسانی دستیاب ہے۔اس کے متن میں آج تک تبدیلی نہیں کی جا سکی۔ مگرغلط ترجمے کی بناء پر متحارب فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ صدیوں پہلے مسلمانوں نے قرآن سے رہنمائی لینا ترک کردیاتھااور صدیوں سے غیرقرآنی افکار کے زیر اثر دو بڑے(شیعہ /سنی) اور درجنوں دیگر فرقوں میں تقسیم ہیں اور سب ایک دوسرے کو صفحہئ ہستی سے مٹانے کی احمقانہ کوششوں میں مصروف ہیں۔کوئی فرقہ یہ دیکھنے اور سوچنے کو تیار نہیں کہ اس دین کو اَللہ کا پسندیدہ دین کیسے کہہ سکتے ہیں جس کی بنیادقرآن پر نہ ہو۔ سعودی عرب نے اپریل2021میں قرآن کو فضیلت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔یہ اچھی پیشرفت ہے مگر عالمگیر سطح پر قرآن کو دین کی بنیادی کتاب منوانے میں وقت لگے گا۔ پاکستان کوامن و امان کی ضرورت ہے، سعودی تحقیق کی مدد اورسنجیدگی سے قرآن کی فضیلت اور اہمیت اجاگر کرنی ہوگی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں