سیاست ابھی بلوغت کو نہیں پہنچی

پاکستان میں جمہوریت کے بارے میں عمومی تأثر تھا کہ ابھی عہدِ طفولیت میں ہے، بلوغت کو نہیں پہنچی۔یہ تأثر درست ہونے کے باوجود ایک ابہام رکھتا ہے،ابہام یہ ہے کہ آزادی سے قبل برصغیر پر برطانوی سامراج کی حاکمیت تھی،دو عالمی جنگوں کے نتیجے میں برطانوی سامراج اس قدر کمزور ہو چکا تھا کہ برصغیر کی اس وسیع و عریض مملکت پر اپنے قبضے کو مزید جاری رکھنا اس کے بس میں نہیں رہا۔ حالات کے بدلتے تیور دیکھ کر تاجِ برطانیہ نے باعزت راستہ یہی سمجھا کہ لکھت پڑھت میں جو لے سکے لے کر براہ راست حاکمیت کی بجائے بالواسطہ اپنا کردار ادا کرے۔اس نے دیگر مقبوضہ علاقوں کے ساتھ بھی یہی فارمولہ آزمایااور بتدریج دسربردار ہوتا رہا۔حتیٰ کہ آئر لینڈ کو بھی آزاد کرنا پڑا۔ آزادی کے بعدپاکستان اور بھارت نے اپنی سرحدوں میں اپنے اپنے معروضی حالات کے مطابق فیصلے کئے۔ پاکستان میں 14 اگست1947سے آج تک بادشاہت کے خواب سب نے دیکھے مگر کسی نے ایک دن کے لئے بھی اپنے بادشاہ ہونے کا اعلان نہیں کیا۔اس لئے پاکستان میں خود رو قسم کی جمہوریت پروان چڑھی، جدید جمہوریت قائم نہیں ہو سکی۔خود رو اورجدید جمہوریت میں وہی فرق ہے جو پاکستان میں پائی جانے والی قدرتی بھنگ اور سرکاری فارم پر اگائی جانے والی جدیدبھنگ میں پایا جاتا ہے۔ قدرتی بھنگ پی کر لوگ مزارات پر ناچنے لگتے ہیں یا کرسی پر بیٹھے بیٹھے سو جاتے ہیں۔لیکن جدید بھنگ (جس کی پہلی فصل پاکستان میں گزشتہ روز سے کاٹی جا رہی ہے)، اس کے بارے میں پی ٹی آئی کی حکومت کادعویٰ ہے کہ نشہ آور نہیں،اس سے کشید کی جانے والی ادویات عالمی منڈی میں مہنگے داموں بکتی ہیں، اس کے تنے سے حاصل ہونے والا ریشہ کپاس سے مہنگا اور زیادہ مفید ہے،کپڑا بنانے کے کام آتا ہے۔ایک ایکڑ اراضی پر اگائی ہوئی جدید بھنگ سے ایک لاکھ ڈالر (پونے دو کروڑ روپے) آمدنی ہوتی ہے۔پاکستان میں جدید جمہورت کو بوجوہ قائم ہونے کا موقع نہیں ملا،اس لئے خود رو جمہورت کے زیر اثر مزارات پر ناچنے والی کیفیت پیدا ہوتی ہے یا کرسی پر بیٹھنے والااپنی آنکھیں بند کرلیتا ہے اور بادشاہ بننے کے خواب دیکھتا ہے۔ جو بادشاہ بننا پسند نہیں کرتے،اپنے لئے ”امیرالمومنین“کا ٹائیٹل میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچا دیتے ہیں تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آئے۔تاریخ کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ بادشاہت قائم کرنے کے لئے ایک طاقت ور اور چاق و چوبند فوج درکار ہوتی ہے،یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر ہمیشہ ترکی کے معروف سلطان صلاح الدین ایوبی کا خواب دیکھا گیا یا سلطنتِ عثمانیہ جیسا امیرالمومنین بنے کی خواہش ظاہر کی جاتی رہی۔جس ملک کی جمہوریت خود رو رہی،کبھی بنیادی جمہوریت اور کبھی پارلیمانی جمہوریت کہلائی،اس کے بارے میں تجزیہ کرنا رائج الوقت عمرانی علوم کے دائرے میں نہیں آتا۔ یہی وجہ یہاں بوٹوں کی چاپ سننے والوں کی حرکات و سکنات کو جمہوریت کی آمد یا رخصت کا پیمانہ بنا لیا گیا۔اسلام آباد پہنچنے کی درخواست عوام کے سامنے نہیں پیش کی جاتی بلکہ عوام کے سامنے کھڑے ہو کر کہا جاتا ہے ”جسے 2018میں سلیکٹ کیا گیا وہ نااہل،نالائق اور ناکام ثابت ہوا،ایک بار پھر ہم مشتاقان اقتدار پر نظرِ التفات ڈالی جائے، ہمیں پھر سے آزمایا جائے، ہم یقین دلاتے ہیں دشنام طرازی ترک کر دیں گے“۔ یاد رہے ایسی التجائیں قدرتی بھنگ ہی کر ہی کی جاسکتی ہیں، خود رو جمہوریت میں ایسی روایت میں ملتی ہے، جدید جمہوریت ایسی التجاؤں کی ہرگز متحمل نہیں ہو سکتی۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ بیشترپاکستانی تجزیہ کاروں نے جدید جمہوریت کاذائقہ نہیں چکھا، ان کی زبان صرف”بنیادی جمہوریت“ کے ذائقے سے آشنا ہے،مگر اس کے ساتھ بوٹوں کی دھمک کا آرکسٹرا نہ ہو تو سارا مزہ کرکراہوجاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ ایسے ماحول کے طلبگار رہتے ہیں جہاں پس منظر میں دھیمادھیما آرکسڑا بجتا رہے۔ ورنہ عوام کے سامنے یہ کہنے کی ہمت نہ کی جاتی:۔۔۔۔ ”قوتوں نے ذرا ہاتھ ہٹایا‘ نتائج سامنے ہیں“۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی یہ شکایت بھی لبوں تک نہ آتی:۔۔۔۔”اپنوں کو جتوایا گیا ہے“۔۔۔۔محققین کو تاریخ کے اس نارک مرحلے پر اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے۔جمہوریت اور سیاست میں پائے جانے والے باریک فرق کو سادہ الفاظ میں عوام کے سامنے لایا جائے۔ایک بار عوام اس فرق کو سمجھ گئے تو انہیں جمہوریت کے نام پر سیاسی دھوکہ دینا دشوار ہو جائے گا۔عام آدمی کے علاوہ دانشور بھی حیران ہیں،انہیں بھی شکایت ہے،یہ کیسی جمہوریت کہ چوبیس گھنٹے نظریں راولپنڈی کی ایک عمارت کے گیٹ نمبر 4پر لگی ہوں، برقع پہن کر ملاقاتیں کی جائیں،انتخابات سے پہلے ہی، میڈیا کے بااعتماد کارکنان کو جیب سے نکال کر ایسی کابینہ کے نام دکھائے جائیں جس میں وزیر اعظم کے عہدے کے سامنے پرچی دکھانے والے ”جمہوری سیاست دان“کا نام درج ہو۔مزاحمت کرنے کی وجہ یہ بتائی جائے کہ اس کے بغیر مفاہمت نہیں ہوتی۔جہاں ’ووٹ کوعزت دو‘ کا نعرہ لگانے والے خود ہی 2ہزار فی ووٹ ادا کرتے پائے جائیں۔آج حالات کاتقاضہ ہے کہ سیاست اور جمہوریت کی صاف، شفاف،سادہ، غیر مبہم واضح اور جامع تعریف(definition)نہ صرف وضع کی جائے بلکہ اسے آئین کا حصہ بنایا جائے۔ آئین میں ووٹر اور امیدوار دونوں کویہdefinition یاد کرائی جائے۔امیدوار سے کاغذاتِ نامزدگی وصو ل کرتے وقت اور ووٹر سے بیلٹ پیپر دیتے وقت سنی جائے۔حالات و واقعات سے ثابت ہے کہ جمہوریت کی پرانی definition:
Of the people, by the people, and for the people
اپنی افادیت، عزت و تکریم اور اپنے معنے کھو چکی ہے۔بار بار اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے، اسے پامال کیا جاتاہے۔اپنی افادیت، عزت و تکریم اور اپنے معنے کھو چکی ہے، جمہوریت کی مذکورہ تعریف کی بتکرار اور مسلسل تذلیل کی جاتی ہے۔ یہ تعریف مسخ ہوکر :
Off the people, buy the people, and far the people
ہو گئی ہے۔اصلاح کی ضرورت ہے تاکہ اس کا اصل چہرہ دکھائی دے سکے۔پاکستان کے شہریوں کو جمہوریت کا ثمر مل سکے۔کرپٹ مافیاز سے عوام کی گلوخلاصی ہو۔جمہوریت کی خود ساختہ تعریف کے نام پر عوام سے کئی دہائیوں سے جاری دھوکہ دہی سے جان چھوٹے۔تسلیم کیا جائے کہ آج عوام پینے کے صاف پانی اور سانس کے لئے صاف ہوا کو ترس رہے ہیں۔دونوں دستیاب نہیں۔ مانا جائے کہ پاکستان میں ابھی سیاست بلوغت تک نہیں پہنچی۔جمہوریت اس کے بعد جنم لیتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں