بہادری مگر دانشمندی سے مقابلہ کرنا ہوگا

اس میں کسی کو کسی قسم کا شک یا ابہام نہیں ہونا چاہئے کہ پاکستان تنہا کورونا وائرس کا شکار نہیں ہوا، ساری دنیا اس کی لپیٹ میں ہے۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس اپنے وسیع تجربے اور عالمی سربراہ ہونے کی بناء پر دوسرے کسی بھی ملک کے (حکومتی) سربراہ سے زیادہ کورونا وباء کی شدت اور ہلاکت خیزی کے علاوہ اس کے اقتصادی اثرات کے ساتھ پیدا ہونے والے معاشرتی مسائل سے آگاہ ہیں انہوں نے کورونا کی جنم بھومی چین کے شہر ووہان سے لے کر نیویارک تک اس کی تباہ کاریوں کا علمی‘مشاہداتی اور سائنسی لحاظ سے تجزیہ کرنے والے صاحبان معاملہ سے بالمشافہ گفتگو ہی نہیں کی بلکہ ان کو ضروری مدد بھی فراہم کی۔یہ ایک پیچیدہ صورت حال ہے جسے امریکی تھنک ٹینک بھی تاحال نہیں سمجھ سکا۔اسے سنجیدگی، تحمل، حوصلے اور دانشمندی سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔یہ دو یا دو سے زائد فریقوں کے مابین کھلی یا چھپی مسلح جنگ نہیں، آمنے سامنے مورچہ بندافراد سے مورچے خالی کرانے والی لڑائی نہیں ہے۔ یہ انسانی آنکھ سے نظر نہ آنے والا ننھا سا جرثومہ ہے جو انسانی جسم میں پہنچ کر اپنی افزائش نسل کرتا ہے،انسانی جسم کے بغیر چند گھنٹوں میں غیر فعال یا بے اثر ہو جاتا ہے۔ مساجد سے دریاں اور قالین ہٹانے کی بڑی وجہ یہی ہے کہ جس جگہ کورونا کامریض سجدہ کر کے جائے وہاں صحت مند نمازی سجدہ کرے گا تو پہلے نمازی کے سانس سے منتقل ہونے والے جراثیم اس تک نہ پہنچ سکیں۔ فرش کو کلورین والے پانی سے دھونے کا مقصد بھی اس کے سوا کچھ نہیں کہ صحت مند افراد کورونا سے بچے رہیں۔مگربڑے دکھ اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ لاہور کی ایک مسجد میں معروف عالم دین اور ایک مکتبہئ فکر کے سربراہ پر 20نکاتی معاہدے کی خلاف ورزی کا مقدمہ درج کرنا پڑا ہے، حالانکہ قرآن میں وعدے کے بارے میں اللہ کا واضح ارشاد موجود ہے:
ترجمہ:”اے ایمان والو! اپنے عقود(معاہدے)پورے کرو“؛(سورۃ المائدہ آیت1)
اورترجمہ:”عہد کو پورا کرو،عہد کے بارے میں پوچھا جائے گا“؛(سورۃ بنی اسرائیل آیت34)۔
عہد کی پاسداری کی مثال صلح حدیبیہ کے معاہدے کے لکھے جانے کے بعد ایک مسلمان کی مکہ سے آمد ہے، جسے اس لئے پناہ نہیں دی گئی تھی کہ معاہدہ میں ایک شرط شامل تھی۔معاہدہ عمل کے بغیر ایک فضول اور بے معنی عمل ہے۔اگر علماء خود ہی معاہدوں پر عملدرآمد نہیں کریں گے تو معاشرہ افراتفری اور انارکی کا شکار ہو جائے گا۔کورونا محض ایک بیماری نہیں اپنے ساتھ ان دیکھی اور ان گنت اقتصادی پریشانیاں بھی لاتا ہے۔پاکستان پہلے ہی مالی لحاظ سے بدترین حالات سے دوچار ہے۔اگر دوست ممالک کھلے دل کے ساتھ مالی مدد نہ کرتے اور اربوں ڈالر پاکستان اسٹیٹ بینک میں منتقل نہ کئے جاتے تو صورت حال ناقابلِ برداشت حد تک پہنچ سکتی تھی۔اور اس برادرانہ امداد کی پاکستان کو بھاری قیمت ادا کرنا ہے جس کی ایک جھلک اپنی تجویز کردہ کانفرنس، منعقدہ کوالالمپور(ملائیشیا)میں عدم شرکت کی صورت میں دیکھی جاچکی ہے نہ جانے اور کنتی شرائط پر عمل ہونا باقی ہے؟
علماء سنجیدگی اور دانشمندی کا مظاہرہ کریں بصورت دیگر حکومت 20نکاتی معاہدے کے حوالے سے لائحہ عمل طے کرنے کا حق رکھتی ہے۔کورونا کا پھیلاؤ پاکستان میں دنیا کے دیگر ممالک کی نسبت کافی سست ہے، اسی مدت میں امریکا میں ہلاکتوں کی تعداد55ہزار سے تجاوز کرگئی ہے جبکہ پاکستان میں صرف281اموات ہوئی ہیں،امریکا میں مریضوں کی تعداد10لاکھ ہونے کو ہے اور اس کے مقابلے میں پاکستان میں کل مریض تاحال 13ہزار328ہیں۔لیکن بد احتیاطی سے منظر تبدیل ہو سکتا ہے۔کورونا کا کوئی مذہب، کوئی زبان اور رنگ و نسل نہیں ہے۔جب اسے پھیلنے کے مواقع ملتے ہیں تو یہ اٹلی، اسپین، فرانس،برطانیہ سمیت کسی کو معاف نہیں کرتا۔پاکستان کے عوام کو اس عذاب کی طرف دھکیلنے کی غلطی نہ کی جائے۔
اپوزیشن بھی کورونا وائرس سے بچاؤ میں عوام کی درست سمت میں رہنمائی کا فرض ادا کرے اپنے ووٹرز کو مصیبت کی اس گھڑی تنہا نہ چھوڑے یہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ یا چٹ پٹے جملوں کے تبادلے کے لئے موزوں نہیں، اگر حکومت کسی وجہ سے کورونا کا مقابلہ کرنے کے لئے اپوزیشن سے مل کر کام نہیں کرنا چاہتی تو اسے آئینی اور قانونی طور پر ایسا کرنے کا حق حاصل ہے لیکن حکومت نے اپوزیشن کے ہاتھ پاؤں نہیں باندھ رکھے اپوزیشن امدادی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے،ان کا کام عوام دیکھیں گے تو خود ہی ان سے جڑے رہیں گے۔ حکومت کی نالائقی، نااہلی اور صلاحیت سے عاری پن سامنے آجائے گا اپوزیشن کے لئے حکومت کو عوام کے سامنے بے نقاب کرنے کا یہ سنہری موقع ہے،اسے ضائع نہ کیا جائے،اپوزیشن کے متحرک اور فعال ہوتے ہیں سب کی کارکردگی کھل کر سامنے آجائے گی۔کورونا کا مقابلہ صرف بہادری سے ممکن نہیں یہ وقت دانشمندی اور احتیاط سے کام کرنے کا متقاضی ہے غیر ضروری جذباتیت سے گریز کیا جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں