وزیر اعظم شہباز شریف اسلام آباد پہنچ گئے

یہ بات معمولی سوجھ بوجھ کا شہری بھی سمجھ سکتا ہے کسی ملک کا وزیر اعظم اقتدار سنبھالنے کے بعدسب سے پہلے اپنے ملک کو درپیش مسائل حل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اقتدار میں آنے سے پہلے اسے تمام مسائل کا علم ہوتا ہے۔ اس اصول کا اطلاق دنیا کی تمام حکومتوں پر ہوتا ہے۔اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ حکومت یک جماعتی ہے یا مخلوط۔پاکستان میں دونوں اقسام کی حکومتیں اقتدار سنبھال چکی ہیں۔2018کے انتخابات میں پی ٹی آئی کو قومی اسمبلی میں دیگر جماعتوں کے مقابلے میں زیادہ نشستوں پر کامیابی ملی مگر ایوان میں اسے سادہ اکثریت نہیں مل سکی۔تاہم اسے دوسرے نمبر پرآنے والی جماعت (مسلم لیگ نون)پر برتری کے لئے دوسے چار پانچ سیٹوں والی جماعتوں (بلوچستان عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل گروپ، متحدہ قومی موومنٹ وغیرہ)سے اتحاد کرنا پڑا۔پی پی پی کی قیادت نے اس حکومت کو دو سیاسی طعنے دیئے: اول یہ کہ یہ حکومت ”الیکٹڈ“ نہیں،بلکہ ”سلیکٹڈ“ ہے۔ یعنی عوام کی منتخب کردہ حکومت نہیں، ایسٹیبلشمنٹ کی پسندیدہ حکومت ہے۔پی ٹی آئی نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا اور اپوزیشن سے ہاتھ ملانے سے انکار کردیااور آج تک اس فیصلے پر قائم ہے۔ ملک کی دیگر گیارہ بارہ جماعتوں نے پی ٹی آئی کی حکومت کو سلیکٹڈ ہونے کی بناء پر تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔جے یو آئی کے قائد مولانا فضل الرحمٰن نے اعلان کردیا کہ وہ 25جولائی 2018کے انتخابات کو تسلیم نہیں کرتے اور دیگر جماعتوں کو مشورہ دیا کہ وہ بھی مستعفی ہو جائیں۔لیکن مستعفی ہونے کا فیصلہ اقتدار سنبھالنے تک کسی نہ کسی بہانے ٹلتا رہا۔ کچھ عرصے بعدپاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم)نامی اپوزیشن کا اتحاد وجود میں آیا۔جسے اقتدار سنبھالتے وقت متحدہ اپوزیشن کہا جاتا تھا۔اب متحدہ حکومت کہلاتی ہے۔نو ساختہ مخلوط حکومت کو مختلف انواع کے سیاسی، معاشی اور انتظامی چیلنجز کا سامنا ہے۔ ابھی کابینہ کی تشکیل ادھوری تھی کہ مسلم لیگ نون کے تاحیات قائد میاں محمد نواز شریف نے وزیراعظم شہباز شریف کو کابینہ کے چیدہ چیدہ لیگی وزراء سمیت اپنے لندن طلب کرلیا۔ بعض وزراء دوروز بعد پاکستان واپس آگئے جبکہ وزیر اعظم مزید مشاورت کے لئے لندن میں رک گئے۔اجلاس انتہائی رازداری سے منعقد ہوا،کئے گئے فیصلوں کا تاحال باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا اس لئے پاکستان کی معیشت اور سیاست کیا روپ دھارے گی کچھ کہنا آسان نہیں۔معیشت تیزی سے زوال پذیر ہے،اوپن مارکیٹ میں ڈالر 200روپے میں بھی دستیاب نہیں۔انٹر بینک ڈالر 195روپے تک جا پہنچا ہے۔پیٹرول اورڈیزل پر سے سبسڈی کا خاتمہ کئے جانے کی افواہیں زور پکڑ رہی ہیں۔ایک مہینہ گزر جانے کے باوجودحکومت کی جانب سے کوئی واضح حکمت عملی سامنے نہیں آسکی۔میڈیا کے ذریعے معلوم ہو ہے کہ آئی ایم ایف بجٹ سازی سے پہلے سبسڈی ختم کرنے کا تقاضہ کر رہا ہے۔ڈیزل مارکیٹ سے غائب ہے، کسان پریشان ہیں۔بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ 12سے 16 گھنٹے تک ہونے کی شکایت اراکین قومی اسمبلی ایوان کے فلور پر کر رہے ہیں۔وزیر اعظم شہباز شریف پہلی مرتبہ ایسی پریشان کن صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں۔ مہنگائی کے علاوہ پی ٹی آئی کی احتجاجی تحریک بھی ایک حل طلب مسئلہ ہے۔خارجہ محاذ پر یوکرین اور روس میں کس کے کھڑے ہونا ہے،یہ مشکل فیصلہ تاحال نہیں ہوسکا۔اس معاملے میں اتحادی جماعتوں کی مشاورت درکار ہوگی۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری امریکی دورے پر جا رہے ہیں، اس سے ہمسایہ ممالک چین اور روس کو کیا پیغام ملے گا؟ سنجیدگی سے غور کیا جانا چاہیئے۔ماضی کا رویہ دیکھتے ہوئے یہ مفروضہ درست دکھائی نہیں دیتا کہ امریکہ پاکستان کی معیشت کو مشکلات سے نکالنے کے لئے ڈالروں کی باش برسانا شروع کر دے گا،اگر امریکہ سے کوئی توقع کی جا سکتی ہے وہ صرف Do more کا حکم ہوگا اوریاد رہےDo more کی کوئی حد نہیں۔ 2018تک پاکستان امریکی کیمپ کا حصہ تھا،لیکن اس کی معیشت دیوالیہ ہونے کے قریب تھی،پاکستان آئی ایف کے پاس 21 مرتبہ جا چکا تھا۔ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کا نام گرے لسٹ میں ڈال رکھا تھا۔سب جانتے ہیں کہ گرے لسٹ میں اس ملک کانام ڈالا جاتا ہے جسے ایف اے ٹی ایف کے متعلقہ بورڈکے 36 ممبرز میں سے کم از کم3ملکوں کی حمایت بھی حاصل نہ ہو۔ان دنوں مسلم لیگ نون کی حکومت تھی اور پاکستان کے ساتھ (منی لانڈرنگ کے ٹھوس شواہد کی بناء پر)چین اور سعودی عرب سمیت کوئی ایک ملک بھی نہیں کھڑا تھا۔زمینی حقائق کو فراموش نہ کیا جائے۔دنیا میں ایک ایسا ملک موجود نہیں جو امریکی کیمپ میں ہے اور اس کی معیشت یورپی ممالک جیسی ہو۔عراق، شام، لیبیاء اور افریقی ممالک کا حشر خود امریکہ نے کیا۔صدر صدام حسین نے امریکی دوستی میں کیا کچھ نہیں کیا،اسے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا شور مچا کر پھانسی کے تختے تک امریکہ نے خود پہنچایا۔شہنشاہ ایران سے زیادہ امریکہ سے وفاداری نبھاہنے والا دنیا میں نہیں ملے گا، اس کا انجام بھی سب کو یاد ہونا چاہیئے۔پاکستان کے پاس جو تھوڑا بہت سفید پوشی کا بھرم ہے وہ ذوالفقار علی بھٹو کی ذہانت اور جرأت مندانہ پالیسی کا نتیجہ ہے۔جو 30ارب ڈالر بیرون ملک سے پاکستانی بھیج رہے ہیں، انہیں باہر بھیجنے کا کریڈٹ بھٹو شہید کو جاتا ہے جس نے پاسپورٹ کا حصول آسان بناکر محنت کشوں تک پہنچایا۔ سعودی عرب سمیت دنیا بھر میں پاکستانیوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کئے۔ہمارے 80ہزار پاکستانیوں کی شہادت اوراربوں ڈالر املاک کی تباہی امریکی فرماں برداری کا نتیجہ ہے۔Do moreکی فرمائش بھی تاریخ کے ریکارڈ کا حصہ ہے۔واشنگٹن سے ارسال کردہ مراسلے میں درج امریکی دھمکی کا اعتراف وزیر اعظم شہباز شریف قومی اسمبلی کے فلور پر کرچکے ہیں۔امریکی آسمان سے 10اپریل 2022کے بعد سے متوقع ہن نہیں برسا۔سارے دعوے الٹے ثابت ہوئے، ڈالر کو پر لگ گئے، مہنگائی نئی بلندیوں کو چھونے لگی،پیٹرول اور ڈیزل کی سمری وزیر اعظم کو بھجوا دی گئی ہے۔آئی ایم ایف کی ٹیم اسلام آباد کی بجائے دوحہ آئے گی۔ یقینا سبسڈی بارے پیشرفت کا جائزہ لے گی۔الغرض چاروں طرف سے بلاؤں نے گھیرے میں لے رکھا ہے۔ ایک دوسرے پر الزام تراشی سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا،بجٹ سازی سر پر ہے، حکومت اپنے تجربے اور معاشی ہنر مندی کے جوہر دکھائے۔تمام مشکلات کے باوجودعوام کی قوت برداشت کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں