مشکلات واقعی زیادہ ہیں‘مگر دور ہو سکتی ہیں

اب سیاست معیشت کے انبار تلے دب گئی ہے،معیشت اپنی بھرپور قوت کے ساتھ سامنے کھڑی ہے،ڈالر کی انٹر بینک قیمت 200روپے سے تجاوز کر چکی ہے۔ اسٹاک ایکسچینج مارکیٹ مسلسل مندی کا شکار ہے۔حکمران فکر مند ہیں کہ حددرجہ مشکلات میں گھری معیشت کو کیسے سنبھالا جائے۔شہباز شریف نے اپنے لیگی وزراء کے ساتھ لندن جا کر اپنے بڑے بھائی سابق وزیر اعظم اور نون لیگ کے تاحیات قائدنواز شریف کے علاوہ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے مشاورت کی۔لیکن وزیر اعظم شہباز شریف اس مشاورت کے نتیجے میں تاحال کسی لائحہئ عمل کا اعلان نہیں کر سکے، حالانکہ ان کے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اور وزارت خزانہ کی ٹیم آئی ایم ایف سے دوحہ میں مذاکرات کر رہی ہے۔ موجودہ حکومت کی اصل پریشانی یہ ہے کہ اسے آئی ایم ایف کی جانب سے پیٹرول اور ڈیزل کو دی جانے والی سبسڈی ختم کرنے کی شرط پوری کرنے کے لئے کہا جارہا ہے،مگر حکومت سمجھتی ہے کہ سبسڈی ختم کرنے کے نتیجے میں مہنگائی بڑھے گی،عوام مہنگائی کانیا بوجھ اٹھانے کو تیار نہیں، اس فیصلے کا بھاری سیاسی نقصان ہوگابلکہ اسے سیاسی موت کہا جا رہا ہے۔حکومت کی اتحادی جماعت ایم کیوایم نے وزیر اعظم شہبازشریف کو مشورہ دیا ہے کہ سیاست قربان کرکے ریاست کو بچایا جائے۔مسلم لیگ نون کے اندر سے بھی فوری انتخابات کی آوازیں سنائی دینے لگی ہیں،نون لیگ کی اہم رہنما اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے بھی اپنے چچا وزیر اعظم شہباز شریف سے سرگودھا کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے واضح الفاظ میں کہا ہے:۔۔”مہنگائی کا بوجھ لانے سے بہتر ہے حکومت چھوڑ دی جائے“۔وزیر اعظم کے لئے دوسری پریشانی یہ ہے کہ ان کی ہدایت کے باوجود بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم نہیں ہو سکی۔ پینے کی پانی کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے، نیززراعت کے لئے پانی دستیاب نہیں۔دوسری طرف واحد اپوزیشن پارٹی پاکستان تحریک انصاف نے گزشتہ روزملتان کے جلسے سے خطاب کے دوران اپنے وعدے کے مطابق اسلام آباد کی طرف ”حقیقی آزادی مارچ“ کی تاریخ کا اعلان کر دیا ہے۔سابق وزیر اعظم عمران خان کو یقین ہے کہ 20لاکھ سے زائد نوجوان ان کی کال پر اسلام آباد پہنچیں گے۔ایک سابق بیوروکریٹ کا خیال ہے کہ اگر پی ٹی آئی ہر ضلع میں ریلیاں نکالے اور دھرنے دے تو حکومت مفلوج ہو جائے گی۔لوگوں کو اسلام آباد بلانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔اس بیوروکریٹ کی دلیل یہ ہے کہ مسلح افواج عوام پر گولی چلانے سے انکار کر دے گی، پولیس کی نفری ہر ضلع میں ریلیوں اور دھرنوں کو نہیں روک سکتی،وہ بھی گولی نہیں چلائے گی۔حکومت کو فوری انتخابات کا مطالبہ ماننا پڑے گا۔یاد رہے کہ سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک کی قیادت میں خیبر پختونخوا سے آنے والی ریلی کو مسلم لیگ کی حکو مت فرنٹیئر کانسٹبلری اور ریلوے پولیس تعینات کرنے کے باوجود 2014میں نہیں روک سکی تھی۔علاوہ ازیں حکومت کے تمام اتحادی بھی فوری انتخابات کو ترجیح دے رہے ہیں،کسی بڑے تصادم سے بچنا چاہتے ہیں۔پی پی پی کے رہنماسید خورشید شاہ نے کہا ہے:”ہم نے حکومت لے کر احسان کیا تھا،اب ہم سے حکومت لے کر ہم پر احسان کیا جائے“۔حکومت لاکھ انکار کرے مگر سچ یہی ہے کہ پی ٹی آئی نے امریکہ مخالف کارڈ بڑی مہارت سے کھیلا ہے۔ پی ٹی آئی کے جلسوں میں عوام کی پرجوش شرکت اس امر کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ملتان کے جلسے میں بھی لوگ ایک رات قبل ہی جلسہ گاہ پہنچ گئے تھے۔جدید ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا نوجوان نسل کو متحرک کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔موجودہ حکومت کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر جاری کردہ معاشی اعدادو شمار(رنگین اشتہارات) کو عوام میں پذیرائی نہیں ملی۔سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کی تشریح نے پنجاب کی حکومت کو مطلوب اکثریت کے حوالے سے مشکوک بنا دیا تھا۔ الیکشن کمیشن کو 30ویں روز اپنا فیصلہ سنانا پڑا:
”پی ٹی آئی کے 25اراکین پنجاب اسمبلی نااہل قرار،رکنیت ختم“
مذکورہ بالا دو فیصلوں کے بعدواضح ہوگیا ہے کہ آئندہ پاکستان میں ضمیر”جاگنے“ کا سلسلہ روک دیا گیا ہے،اور جوا راکین اسمبلی نام نہاد ”ضمیر“ کے نام پر پارٹی کی پالیسی سے انحراف کرکے کروڑوں روپے کمایاکرتے تھے ان کا یہ مکروہ کاروبار بند ہو چکا ہے۔اور جو (دو نمبری)مالدار پاکستانی اور غیر ملکی ان خریدے ہوئے اراکین سے اپنی مرضی کی قانون سازی کراتے تھے،مستقبل میں وہ ایسا نہیں کرسکیں گے۔آئندہ اپوزیشن اس گھناؤنے کھیل کے ذریعے صوبائی یا وفاقی حکومت کو ہٹا کر اپنے من پسند ”لوٹوں کو اقتدار میں لانے کے قابل نہیں رہی۔جہانگیر ترین اور علیم خان جیسی ذہنیت کے افراد کی اجارہ داری اور بلیک میلنگ کا دروازہ بند ہوگیا ہے۔25حمائتیوں کی نااہلی کے بعدحمزہ شہباز پنجاب کے وزیر اعلیٰ نہیں رہے۔انہیں ہاؤس کے 186اراکین کی حمایت درکار تھی‘نہیں رہی۔اس بارے چوہدری ظہور الٰہی نے پر اعتماد لہجے میں میڈیا کوبتایا ہے کہ صوبائی اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں گی لیکن قومی اسمبلی کا ازسرِ نوانتخاب کرایا جائے گا۔ اس کے معنے یہی ہو سکتے ہیں کہ دیگر تمام معاملات طے ہوچکے ہیں۔25سیٹوں پر ضمنی انتخابات کرائے جائیں گے،اکثریت پی ٹی آئی کے پاس آجائے گی۔باقی مدت میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ کون ہوں گے؟اس کانام بھی جلد ہی سامنے آجائے گا۔خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستان کی سیاست میں لوٹوں کا عمل دخل اختتام پذیر ہو گیا ہے۔کوئی علیم خان،کوئی جہانگیرترین اراکین اسمبلی کو کھانے کھلاکر وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کو بلیک میل نہیں کرسکے گا،اپنے مقدمات ختم نہیں کراسکے گا۔ بیشترمبصرین کا خیال ہے کہ یہ صرف 25اراکین اسمبلی کی نااہلی ختم نہیں ہوگی،اس کے ساتھ بلیک میلنگ کے کاروبارکو بھی بڑا دھچکا لگا ہے۔اگر کوئی کست رہ گئی ہے تو قومی اسمبلی کے انتخابات دور کر دیں گے۔اسی دوران لاہور ہائی کورٹ کا لب و لہجہ بھی خاصا جارحانہ ہوگیا ہے، عدالت نے متعدد آئینی اور قانونی سوالات اٹھائے ہیں، ایڈووکیٹ جنرل کی جانشینی/ تقرری بھی متنازعہ ہو گئی ہے۔حمزہ شہباز کا وزیراعلیٰ ہونا اور رہنااب ممکن نہیں رہا۔ عدالت نے 25 مئی کو فریق مخالف کو طلبی کانوٹس جاری کر دیا ہے۔عدالتی فیصلے کے بعدلوٹوں کے لئے معاشرے میں سر اٹھا کر چلنا مشکل ہو گیا ہے۔توقع ہے دو چار روز میں ہرقسم کاقانونی ابہام دور ہو جائے گا،عام آدمی کو پیغام مل جائے گا کہ ہیرا پھیری والی ذہنیت کا راج (وقتی طور پر ہی سہی) ختم ہو گیا ہے۔اگر نئی قومی اسمبلی عوام دوست قانون سازی کرنے میں کامیاب ہو گئی توقانون کو گھر کی لونڈی سمجھنے والے، بتدریج کم ہونا شروع ہوجائیں گے۔معاشی پسماندگی کی جڑ یہی لوگ ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں