حکومت بھی حرکت میں آ گئی

اداریہ
حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان جاری محاذ آرائی اب فیصلہ کن دور میں داخل ہو گئی ہے۔پی ٹی آئی کی جانب آج”حقیقی آزاد لانگ مارچ“ نامی لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان متوقع ہے۔سابق وزیر اعظم اورچیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے ملتان کے جلسے سے خطاب کے دوران حاضرین جلسہ سے کہا تھا پہلے ان کا ارادہ تھا کہ جلسے کے دوران ہی تاریخ کا اعلان کر دیا جائے لیکن اب تاریخ کا تعین پشاور میں بلائی گئی پی ٹی آئی کی کور کمیٹی کے اجلاس میں ہوگا۔ ممکنہ تاریخ25اور29مئی کے درمیان ہو گی۔ملک بھر سے پی ٹی آئی کے ورکرز اسلام آباد پہنچیں گے، جبکہ عمران خان سمجھتے ہیں کہ سابق فوجیوں اور حاضر ڈیوٹی سرکاری ملازمین کی فیملیز بھی احتجاج میں شریک ہوں گی۔حکومت نے لانگ مارچ کو ناکام بنانے کے لئے گزشتہ رات سے ہی پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی گرفتاریا ں شروع کر دی ہیں۔موصولہ میڈیااطلاعات کے مطابق مستعفی ایم این اے اور پی ٹی آئی کی اہم رہنما شیریں مزاری کو ان کے گھر کے قریب سے (اسلام آبادمیں)اینٹی کرپشن پنجاب کی ٹیم نے گرفتار کر لیا ہے۔ کراچی میں بھی بعض رہنماؤ ں کے گھروں پر چھاپے مارے گئے ہیں۔اس کے معنے یہی ہوتے ہیں کہ حکومت نے لانگ مارچ کو روکنے اور ناکام بنانے کے لئے اقدامات کا آغاز کر دیا ہے۔ حکومتی کوشش ہو گی کہ لوگوں کو گھروں سے نہ نکلنے دیا جائے۔ابھی تک معاملات جلسوں کی سیاست تک محدود تھے،لیکن لانگ مارچ کی تاریخ کااعلان ہوتے ہی لوگ اسلام آباد پہنچا شروع ہو جائیں گے۔بعض صحافی اپنی ذاتی معلومات کی مدد سے یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ مری اور اسلام آباد کے قرب و جوار میں ہزاروں کی تعداد میں ورکرز پہلے ہی پہنچ چکے ہیں۔دو ہزار کے لگ بھگ ورکرز دو دن سے عمران خان کی رہائش گاہ کے سامنے پڑاؤ ڈالے ہوئے ہیں۔گزشتہ سے پیوستہ شب تین بجے ایلیٹ فورس کی بھاری نفری بنی گالہ پہنچی تھی ان کے ہمراہ قیدیوں کو منتقل کرنے کی گاڑی بھی تھی لیکن ورکرز کی نعرے بازی اور اشتعال کے پیش نظر پولیس سیکیورٹی کے انتظامات کی جانچ پڑتال کر کے واپس چلی گئی۔تاہم آنے والے چندروز اہم ہیں،حکومت جو کچھ کر سکتی ہے یقینا کرے گی۔واضح رہے کسی حکومت سے دستبرادی کا اعلان ہمیشہ آخری آپشن ہوتا ہے۔پی آئی آئی کے دو مطالبات ہیں:اول یہ اسمبلیاں تحلیل کی جائیں اور دوم یہ کہ آئندہ انتخابات کا اعلان کیا جائے۔مختلف حوالوں سے لیکس کے نام پر انتخابات کا انعقاد ستمبر کے اواخر یا اکتوبر کے اوائل میں ممکن ہے۔ اس کی دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ نومبر کے آخری ہفتے میں نئے آرمی چیف کی تقرری ہونا ہے۔یہ فیصلہ بااختیار وزیر اعظم کے دستخطوں سے ہوگا یا کسی کمزور وزیراعظم سے یہ رسمی کارروائی کرانا پسند کیا جائے گا۔حالیہ محاذ آرائی کی بڑی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ یہ تقرری بھی ہو سکتی ہے۔دوسری وجہ خارجہ پالیسی کی سمت متعین کرنے کاحتمی فیصلہ کہی جاتی ہے۔گزشتہ 75برسوں میں ماسوائے 20دسمبر1971تا13اگست 1973پی پی پی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹوکی بطور سویلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹرتقرری اور پھر (14اگست1973تا5جولائی1975)بطور وزیر اعظم پاکستان کلیدی نوعیت کے فیصلے کرنے کا ساڑھے چار سال موقع ملا تو انہوں نے روس سے تجارتی روابط بڑھائے، چین سے قربت میں بھی ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی ذہانت اور خارجہ امور پر دسترس نے بنیادی کردار ادا کیا تھا۔جبکہ باقی عرصہ پاکستان امریکی کیمپ کا حصہ رہا۔ سیٹو سینٹو میں شمولیت بھی اختیار کی۔پی ٹی آئی کے چیئرمین اور وزیر اعظم عمران خان کا 23فروری2022کا ماسکو کا دورہ امریکہ کو سخت ناگوار گزرا، بالخصوص 30فیصد کم قیمت پر لاکھوں ٹن گندم اور اربوں ڈالر کی پیٹرول اور گیس کی خریداریامریکہ کو ایک آنکھ نہ پسندآئی۔ چنانچہ اس ناراضگی کے نتیجے میں پاکستان کو یہ دن دیکھنے پڑے۔ڈالر کی قیمت 200روپے سے تجاوز کر گئی۔بجلی کے بلوں اضافہ ہو اور اب پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں بڑھانے پر آئی ایم ایف سے مذاکرات جاری ہیں۔ عوام کی صورت اس گنے جیسی ہو گئی ہے جو رس نچوڑنے کے لئے بار بار بیلنے میں سے گزارا جاتا ہے تاکہ اس کی آخری بوند تک نچوڑ لی جائے۔عام آدمی شدید گرمی، رمضان اور عید کی مصروفیات نظر انداز کرکے 10اپریل2022سے سڑکوں پر ہے۔حکومت جلسوں کو صبروتحمل سے برداشت کرتی رہی مگر اسلام آباد میں مشتعل مگر پرعزم عوام کی موجودگی اس کی قوت برداشت کا بڑاامتحان ہے۔اس امتحان کو ٹالنے کے لئے حکومت نے انتظامی اقدامات شروع کر دیئے ہیں۔مگر یہ راہ بھی دشواریوں سے بھری پڑی ہے۔چھوٹے چھوٹے جلوس اور اجتماعات کو روکناممکن ہے لیکن یہ اجتماعات بڑے اور بے قابو ہو جائیں تو امن و امان خطرے سے دوچار ہو جاتا ہے۔پولیس اور فوج اپنے عوام پر گولیاں نہیں برسا سکتی۔آنسو گیس کے شیل پھینک کر ہجوم کو منتشر کرنے کی کوشش سے زیادہ کچھ نہیں ہوسکے گا۔حکومت عوام کواسلام آباد پہنچنے سے پہلے گھروں میں بند رہنے پر کیسے آمادہ کرے گی؟ابھی کچھ کہنا آسان نہیں۔موسمی شدائد کے باوجود جلسوں میں شرکت کی نئی مثالیں قائم ہونا حکومت کے لئے نیک شگون نہیں۔ان حالات میں مناسب ہوم ورک کے بغیرعجلت میں کیا جانے والا کوئی جذباتی فیصلہ حکومت کے لئے بڑا دردِ سر بن سکتا ہے۔یہ کہنا بھی اپنی جگہ درست ہے کہ حکومت ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھ سکتی، دور کھڑی تماشہ نہیں دیکھ سکتی۔لیکن سیاسی معاملات کو سیاسی انداز میں حل کرنے کا آپشن حکومت کے پاس موجود ہے تو گرفتاریوں کا کمزور فارمولہ آزمانے کی کیاضرورت ہے؟پی ٹی آئی کے دونوں مطالبات کو سیاسی انداز سے حل کیا جا سکتا ہے۔مسلم لیگ نون اور اس کی اتحادی جماعتیں ساڑھے تین سال
تک اپوزیشن میں رہتے ہوئے خود بھی نئے الیکشن کا مطالبہ کرتی رہی ہیں۔ جمہوریت کا حسن یہی ہے کہ اپنے اختلافات اور سیاسی، سماجی، معاشی، داخلی اور خارجی مسائل کو جمہوری اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے حل کیا جائے۔مہذب ممالک میں یہی طریقہ رائج ہے۔پی ٹی آئی کی کال پر منعقد ہونے والے تمام جلسے حددرجہ پرامن رہے،کسی جلسے میں لاقانونیت کا کوئی عنصر نہیں دیکھا گیا۔ حکومت اس رجحان کی حوصلہ افزائی کرے۔کسی خام خیالی کا شکار ہو کرپر امن ماحول کو بدامنی کی طرف نہ دھکیلا جائے۔ابھی تک معاملات خوش اسلوبی سے طے کرنے کے امکانات موجود ہیں۔موجودہ حکومت بھی سابق حکومت کے بیشتر اقدامات کو درست کہہ رہی ہے۔یاد رہے معاشی بدحالی ایک خطرناک عالمی فیکٹر ہے، اسے نظرانداز نہ کیا جائے۔ریاستی قوت کا آخری آپشن سمجھا جائے۔موجودہ تناظر میں ریاستی قوت کا آپشن سودمندنظر نہیں آتا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں