جمہور کی مرضی پوچھی جائے، تسلیم کی جائے

اب عوام کے سامنے یہ سوال نہیں کہ 2018میں منعقد ہونے والی اسمبلیاں جعلی تھیں؟ فراڈ تھیں؟ سلیکٹڈ تھیں؟ جھرلواورچمک کا نتیجہ تھیں؟ریٹرننگ افسران کا کرشمہ تھیں؟آسمانی مخلوق کے ووٹوں سے وجود میں آئی تھیں؟یاعوام کی مرضی کے بغیر عوام پر مسلط کردہ تھیں؟اب سوال یہ ہے کہ 2018کی ناجائز، غیر آئینی،اور غیر قانونی اسمبلیوں سے نجات کیسے حاصل کی جائے؟ یہ حالات کا جبر نہیں تو اسے اور کیا نام دیا جائے کہ ساڑھے تین سال تک دن رات عوام کو یقین دلانے والی 11یا11سے زائد سیاسی جماعتیں جب کسی طرح پی ٹی آئی اور اس کی اتحادی جماعتوں کو حکومت سے بیدخل کرنے میں کامیاب ہو گئیں اور ان کرشماتی اور غیر آئینی اسمبلیوں سے چھٹکارہ پانے کی صلاحیت حاصل کرلی تو حد درجہ افسوسناک بلکہ شرمناک انداز میں انہی غیر آئینی اور سلیکٹڈاسمبلیوں کو دوام بخشنے میں مصروف ہوگئیں۔دوام کی کوششوں کو سیاست اور جمہوریت کی بقاء کے لئے لازمی شرط قرار دینے کی تبلیغ شروع کردی۔کسی کو یاد نہیں رہا کہ ملک اور عوام معاشی مشکلات کا شکار ہیں، اس ضمن میں کوئی بات نہیں کی جارہی۔یپہ بحث اہم نہیں کہ آئی ایم کی شرائط تسلیم نہ کی گئیں تو ملک کہاں کھڑا ہوگا اور اگر تسلیم کرلیں تو عوام کہاں کھڑے ہوں گے؟ موجودہ حکومت اپنی پیشرو حکومت کو سارے مسائل کا ذمہ دار کہہ رہی ہے اور حیرت انگیز طور پرسابق حکومت نے پی ڈی ایم اور اس کی اتحادی جماعتوں والا نعرہ اپنا لیا ہے۔واضح رہے عام آدمی کو حالیہ حکومتی تبدیلی سے بظاہر کوئی دلچسپی یا ہمدردی نہیں، عام آدمی کی نظریں اپنے کچن کے چولھے پر جمی ہیں۔ بیشتر والدین زیر تعلیم بچوں کی فیس بروقت ادا کرنے کے قابل نہیں رہے۔انہیں اسکول فیس کی ادائیگی کی فکر لاحق ہے۔ہو یہ رہا ہے کہ ماہانہ آمدنی بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث ماہانہ اخراجات اٹھانے کی سکت ہر لمحے کھوتی جا رہی ہے۔سب جانتے ہیں عام آدمی کی قوت خرید کم ہوجائے توتاجر برادری بھی متأثر ہوتی ہے۔گویا پورامعاشرہ مسائل اور مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے۔ایسے ہی حالات میں سری لنکا دیوالیہ قرار دیا جا چکا ہے۔اب دن بدن بڑھتا ہوا یہ خطرہ پاکستان کے سر پر منڈلا رہا ہے۔مگر حکومت اور اپوزیشن میں سے کوئی ادھر دیکھنے کو تیار نہیں۔سب کی نظریں کرسی پر مرکوز ہیں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ حکومت پی ٹی آئی کی بڑھتی ہوئی عوامی مقبوکیت سے خائف ہے،اور فوری انتخابات سے گریزاں ہے۔ مبصرین کی رائے وزن رکھتی ہے۔پی ٹی آئی کے جلسوں میں عوام کی غیر معمولی حاضری اسی قسم کا اشاہ ہے۔ مقتدرہ پس پردہ اس صورت حال سے نکلنے کا کوئی مناسب راستہ تلاش کر رہی ہوگی لیکن عام آدمی تک حقائق کی بجائے افواہیں پہنچتی ہیں۔یاد رہے افواہیں کسی طور حقائق کا نعم البدل نہیں ہوا کرتیں۔یہ درست ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے باعث حقائق کوزیادہ دیر تک چھپانا ممکن نہیں رہا، مگر تاخیر کتنی بھی کم ہو، نقصان دہ ہوتی ہے، مفید نہیں ہو سکتی۔معاشرہ ایک جسم کی مانند ہے، اسے صحتمند رہنے کے آکسیجن درکار ہے، چند سیکنڈ کا تعطل جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔اسی طرح کوئی ملک ایک فعال اور قابل اعتماد حکومت کی عدم موجودگی کے بغیر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتا۔موجودہ صورت حال کسی ایسے آتش فشاں کا منظر بنی ہوئی ہے جو پھٹنے کے قریب ہو،اس سے نکلتا ہوا دھواں یہ پیغام رکھتا ہے کہ جسے محفوظ مقامات کی طرف جانا ہے، فوراً روانہ ہوجائے۔اگر افواہوں میں ذرا سے صداقت بھی پائی جائے تو اس کے معنے یہی ہوں گے کہ پس پردہ کچھ لوگ متنازعہ حکومت کو طول دینے کی کوششوں میں مصروف ہیں، انہیں چاہیئے کہ ملک اور عوام کے مفادات سامنے رکھیں،سب سے پہلے معیشت کو سدھارا جانا ہے۔ ذاتی، گروہی اور جماعتی سطح سے بلند ہو کر سوچیں۔ملکی معیشت تباہی کے دہانے تک پہنچ چکی ہے۔امریکی ڈالر کی بلندی،پاکستانی روپے کا زوال اور اسٹاک ایکسچینج کی تنزلی معاشی خرابی کا نمایاں انڈیکیٹر ہے۔ پاکستان کو دوسرا سری لنکا بنانے کی غلطی نہ کی جائے۔ہوش کے ناخن لئے جائیں۔پاکستان کے عوام کو ایسی گہری کھائی میں دانستہ گرانا بہت مہنگا پڑے گا۔جفاکش اور محنتی عوام تو جیسے تیسے ان مشکلات کو عبور کر لیں گے لیکن بالائی طبقہ اس غلطی کی پوری قیمت ادا کرنے کے لئے ذہنی اور جسمانی طور پر تیار ہو جائے۔غلطی کی منصوبہ بندی کرنے والوں کے پاس بہت کم وقت بچا ہے۔آج عوام کے تیور توجہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔عوام تند و تیز موجوں کی طرح امڈ کر گھروں سے نکلے ہیں،ان کا جوش و جذبہ ماضی کی تصویروں سے جدا ہے۔صاف نظر آرہا ہے کہ یہ اپنا مقصد حاصل کئے بغیر گھروں کو نہیں لوٹیں گے۔بیرون ملک پاکستانیوں نے امریکی مراسلے کو بڑی حقارت سے مسترد کر دیا ہے۔ ”Beggars can’t be choosers“ والی دلیل کو پاکستان اور پاکستان کے باہر کوئی پذیرائی نہیں ملی۔جیسے ملکہئ فرانس کے کیک کھانے والے مشورے کو پیرس کے عوام نے مسترد کر دیا تھا۔جو ہونا تھا ہو چکا، اسے سمیٹا جائے، اور خیال رکھا جائے کہ ٹال مٹول اور بہانہ بازی سے کام نہیں چلے گا۔پی ٹی آئی کی سینئر رہنما اور رکن قومی اسمبلی شیریں مزاری پر عجلت میں بنایا گیا مقدمہ 10گھنٹو ں میں ختم ہو گیا۔گرفتار کرنے والے انہیں راجن پور پہنچانے کی ہمت نہیں ہوئی۔
صحافیوں کو عدالتوں سے رات گئے انصاف ملنا ایک مثال کا درجہ اختیار کر گیا ہے۔ جن لوگوں کی آنکھیں ابھی نہیں کھلیں، انہیں چاہیئے کہ اپنے منہ پر ٹھنڈے پانی کے چھینٹے ماریں، تاکہ بند آنکھیں کھل سکیں،کوشش کریں کہ عوام کے واپس جانے تک جاگتے رہیں۔ایسے فیصلہ کن مراحل صدیوں بعد قوموں کی زندگی میں آتے ہیں، پاکستان کے عوام 75برس بعد اپنی بات منوانے کے ارادے سے گھروں سے نکلے ہیں۔امریکہ اگست2021میں افغان عوام کا غیض وغضب دیکھگ چکا ہے، اسے معلوم ہے کہ عام آزادی جب ذہنی اور جسمانی غلامی کو نامنظور کہہ دیں تو گولی بارود کا خوف انہیں فیصلہ تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کرسکتا۔پاکستان کی خفیہ ایجنسیاں پل پل کی خبر حکام بالا تک پہنچا رہی ہیں۔حکام انہیں سنجیدگی سے پڑھیں، اپنی قبلہ درست کر لیں۔واضح رہے ایک غلطی ان سے سرزد ہو چکی ہے اور دوسری غلطی کی ان کے پاس گنجائش نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں