حادثاتی اموات کورونا سے زیادہ مگر۔۔۔؟
وفاقی وزیر منصوبہ بندی کا یہ کہنا اپنی جگہ درست ہے کہ پاکستان میں ہر مہینے 4ہزار8سو کے قریب شہری ٹریفک حادثات میں جاں بحق ہو جاتے ہیں مگر اس کو دلیل بنا کر ملک میں ٹریفک پر پابندی لگانے کا مطالبہ نہیں کیا جاتامگر کورونا کے حوالے سے لاک ڈاؤن ضروری سمجھا جاتا ہے۔لیکن اسد عمر کو اس کی بنیادی وجہ کا علم ہونا چاہیئے کہ ٹریفک حادثے میں ہلاک یا زخمی ہونے والے افراد حادثے کے اثرات دوسروں تک پہنچانے کا ذریعہ نہیں بنتے ان کے ارد گرد کھڑے یا انہیں ہاتھ لگانے اور اسپتال پہنچانے والے صحت مند رہتے ہیں انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچتا جبکہ کورونا سے متاثرہ شخص کو جب تک یہ علم ہوتا ہے کہ وہ کورونا کا شکارہے اس وقت تک وہ درجنوں لوگوں تک وائرس پہنچا چکا ہوتا ہے اور پھر یہ سلسلہ انتہائی تیز رفتاری سے پورے شہر اور ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ اٹلی، اسپین، فرانس،برطانیہ اور امریکا اس کی خوفناک مثالیں ہیں۔لیکن کورونا تنہا مسئلہ نہیں،اپنے ساتھ متعدد مسائل کا ہجوم لے کر چلتا ہے۔پہلا مسئلہ یہ ہے کہ وہ لوگوں سے دور رہے اور لوگ اس سے دور رہیں اپنے خاندان سے بھی نہ ملے۔قرنطینہ اسی عمل کا نام ہے۔اس لئے حادثاتی اموات کا اس سے موازنہ کرنا درست نہیں۔البتہ اسد عمر کی یہ دلیل وزن رکھتی ہے کہ اگر کورونا وائرس کے نام پر کاروبار کو لامحدود عرصے تک بند رکھا گیا تو ایک کروڑ80لاکھ لوگ بے روزگار ہو سکتے ہیں۔10لاکھ چھوٹے ادارے ہمیشہ کے لئے بند ہونے کا اندیشہ ہے۔ان حالات میں سوچ بچار اور نئی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ اب دنیا بھر میں لاک ڈاؤن ختم کرنے اور معمول کی زندگی کی طرف واپس جانے کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ چینی سفیر پر امید ہیں کہ کوروناایک عارضی چیلنج ہے اور پاکستان بہت جلد کورونا پر قابو پانے میں کامیاب ہو جائے گا پاکستان میں 60سے زائد آبادی کی عمر 30سال سے کم نوجوانوں پر مشتمل ہے یہاں کورونا سے متأثر زیادہ تر نوجوان ہیں اور ان میں کورونا کی ہلکی علامات ہیں لہٰذا ان کا علاج آسان ہے ان کا علاج چینی طب کی طرح جڑی بوٹیوں سے بھی کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے ہمسایہ ملک ایران میں کورونا کی پابندیاں نرم کر دی ہیں۔افغانستان سے بھی خطرناک اطلاعات نہیں آرہیں۔سعودی وزیر خزانہ بھی کہہ ر ہے ہیں کہ کورونا سے معیشت کو دھچکا لگا ہے تکلیف دہ فیصلوں کا وقت آ گیا ہے معاشی ابتری سے نمٹنے کے لئے سخت اقدامات کریں گے بجٹ خسارہ کم رکھنے کے لئے مزید اقدامات زیر غور ہیں۔پاکستان کی معیشت کا موازنہ سعودی عرب سے نہیں کیا جا سکتا۔ان کی آمدنی کا دارومدار تیل پر ہے۔وہ تیل کی قیمتیں بڑھا کر اپنی کمی پوری کر لیں گے بوجھ پاکستان پر پڑے گا عرب ممالک سے بھی بڑی تعداد میں پاکستانی واپس آئیں گے۔اس کے نتیجے میں ایک جانب بیرون ملک سے آنے والی آمدنی میں کمی آئے گی اور دوسری جانب پاکستان میں بے روزگاری بڑھے گی۔ان حالات میں وفاق اور سندھ کے درمیان محاذ آرائی مناسب نہیں۔امید کی جانی چاہیئے کہ دونوں فریق حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے کوئی جذباتی فیصلہ کرنے سے گریز کریں گے۔کورونا جب تک دنیا سے مکمل طورپر ختم نہیں ہوتا اس وقت تک احتیاطی تدابیر اپنانا ہوں گی۔وفاقی وزراء کی باتوں سے لگتا ہے کہ وہ جلد ہی کاروباری سرگرمیاں بحال کر دیں گے۔ ادھر پولیس کے خوف سے شٹر گرا کر خود کو گرفتاری سے بچانے کی کوشش میں تاجر کی ہلاکت بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔حکومت سندھ کو صرف دیہاڑی دار مزدوروں کو نہیں دیکھنا دکاندار بھی روز کنواں کھودتے اور روز پانی پیتے ہیں۔ مارکیٹیں طویل مدت کے لئے بند ہو جائیں تو ان کے لئے بھی جینا مشکل ہو جاتا ہے۔سفید پوش طبقہ سب سے زیادہ مشکل میں ہے اسے کسی طرف سے امدادی پیکج نہیں ملتا۔وہ ایک ایک دن گن کر کاٹ رہا ہے۔بہرحال اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے ساری دنیا پریشان ہے۔سب کو اپنی پڑی ہے۔بڑے ملکوں میں زیادہ تباہی آئی ہے۔کوئی ملک اس ناگہانی آفت کے اثرات سے واقف نہیں تھا اور نہ ہی کسی ملک نے ایسی تباہ کن آفت سے مقابلے کے لئے کوئی پیشگی منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔کسی ملک میں ایسا ہیلتھ کیئر سسٹم نظر نہیں آیا جو کورونا کے آگے حفاظتی بند باندھ سکتا۔چین واحد ملک ہے جس نے ہفتوں میں نہ صرف ہزاروں مریضوں کے لئے اسپتال تعمیر کر لئے بلکہ لاک ڈاؤن کئے گئے علاقوں میں راشن سمیت ضرورت کی اشیاء پہنچانے کا بندوبست بھی کیا۔پاکستان میں ابھی تک اقدامات ابتدائی مرحلے میں ہیں۔اس کی وجہ فنڈز کی کمی اور منصوبہ بندی کا فقدان یا دونوں وجوہات ہو سکتی ہیں اور دونوں کی ذمہ داری حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے۔عام آدمی پالیسی سازی میں حصہ نہیں بنتااور بن بھی نہیں سکتا۔ لیکن حکمرانوں کی پالیسیوں کے مثبت یا منفی نتائج کا خمیازہ عام آدمی کو بھگتنا پڑتا ہے۔وفاق اور سندھ کی حکومت کو آج کے زندہ مسائل اور زمینی حقیقتوں کو سامنے رکھتے ہوئے حکمت عملی وضع کرنی ہوگی۔ ایک دوسرے پر سنگباری سے دونوں نقصان میں رہیں گے دونوں شیشے کے گھر کے مکین مقیم ہیں آنے والا سنگ پھینکے گئے سنگ جیسا ہی تباہ کن ہوتاہے۔یاد رہے کہ تا قیامت کسی پارٹی نے حکمرانی نہیں کرنی سب ایک دن میڈیا کو بتار ہے ہوں گے انتخابات سے پہلے ہم سے وعدہ کیا گیا تھا ہماری حکومت بنے گی مگرآنکھ کھلی تو کرسی پر کوئی اور تھا۔یہ بھی یاد رہے عوام کے مفاد کو سامنے نہ رکھنے کا یہی انجام ہوتا ہے۔
Load/Hide Comments