یکساں کورونا پالیسی بنائی جائے
سپریم کورٹ میں کورونا کے حوالے سوموٹو مقدمے کی سماعت کے دوران معززججز نے اہم نکات سامنے لاتے ہوئے سوالات کئے اورصوبائی اور وفاقی حکومتوں کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹس کو غیر تسلی بخش قرار دیا۔ عدالت عظمیٰ نے لاہو ر میں قرنطینہ کے بارے میں کہا کہ پیسے لئے بغیر قرنطینہ میں نہیں رکھا جاتا، میت واپس نہیں کرتے۔کس مٹی کے بنے ہیں سندھ میں گندم غائب کرنے والے کیا انسان کہلا سکتے ہیں؟ این ڈی ایم اے کی کارکردگی بھی مطلوبہ معیار سے کم نکلی۔ عدالت نے غیرملکی امدادکی تقسیم کی تفصیل طلب کر لی۔جتنی غیرملکی امداد آرہی ہے بتایا جائے کہاں خرچ ہو رہی ہے؟ کہاں جا رہی ہے؟ہول سیل میں ماسک 2روپے میں ملتا ہے۔بتایا جائے این ڈی ایم اے کتنے میں خریدتا ہے؟ پہلے امداد اپنے سینٹرز کے لئے روک لی جاتی ہے پھر بچی ہوئی چیزیں سرکاری اسپتالوں کو دی جاتی ہیں۔
عدالت نے سوال کیا: جو ادارے وفاق کو ٹیکس دیتے ہیں صوبائی حکومت انہیں کیسے بند کر سکتی ہے؟وفاقی معاملات کے حوالے سے شیڈول4کو دیکھ لیں امپورٹ، ایکسپورٹ، لمیٹڈ کمپنیز، ہائی ویز اور ٹیکس کے معاملات وفاقی ہیں۔وفاقی ریونیو کا راستہ صوبائی حکومتیں کیسے بند کر سکتی ہیں؟ عدلیہ نے یہ کہا کہ بظاہر ایسا لگتا ہے تمام ایگزیکٹو ناکام ہو گئے ہیں کسی کو احساس نہیں کہ حکومتیں ایک ساتھ بیٹھیں اور بات کریں۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے وضاحت پیش کی صوبائی حکومت2014کے تحت اقدامات کر رہی ہے اس کے جواب میں جسٹس عمر بندیال نے کہا مذکورہ قانون کے تحت صوبہ صدر مملکت کی تائید کا پابند ہے۔اٹارنی جنرل نے وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کچھ تیکنیکی پہلوؤں کی وجہ سے زکوٰۃ اور بیت المال فنڈز میں بے قاعدگیوں کا تأثر ابھرا ورنہ مذکورہ فنڈز میں کوئی بے قاعدگیاں نہیں ہوئیں۔اٹارنی جنرل نے تجویز دی کہ ملک کو غیر معمولی صورت حال کا سامنا ہے سیاسی قیادت کو معاملات حل کرنے دیئے جائیں عدالت مداخلت نہ کرے۔چیف جسٹس نے کہا ہم مداخلت نہیں کر رہے لیکن لوگوں کے بنیادی حقوق کی حفاظت ہماری آئینی ذمہ داری ہے۔جسٹس قاضی امین نے کہاحالات کیوں دن بدن بگڑتے جا رہے ہیں یہ پوچھنا ہماری ذمہ داری ہے۔
اس میں شک نہیں کہ حکومتیں کورونا جیسی وباء کے مقابلے میں عوام کے اطمینان سے کہیں کمتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔کراچی میں ایک سینئر ڈاکٹر کو ایمبولنس دو گھنٹے تک لے کر گھومتی رہی مگر انہیں کسی سرکاری اسپتال میں وینٹی لیٹر کی سہولت نہ مل سکی اس لئے کہ وینٹی لیٹر خراب تھے مذکورہ ڈاکٹر اس نالائقی کے باعث جان سے گئے۔اب اس غیر ذمہ دارانہ رویہ کی انکوائری ہو رہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ خرابی کی بنیادی وجہ کیا ہے؟سپریم کورٹ جب تک بنیادی وجہ کو بے نقاب نہیں کرے گی اور کرپشن میں ملوث افراد کو ان کے کئے کی قرار واقعی سزا نہیں دے گی صورت حال جوں کی توں رہے گی۔ مجرم جانتے ہیں قانون میں اتنے سقم ہیں کہ انہیں سزا ملنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔جس ملک کا وزیر اعظم دن رات شکایت کرتا نظر آئے:”مرغی چور جیلوں میں بند ہیں مگر ملک کا خزانہ لوٹنے والے لندن میں گھوم رہے ہیں“، وہاں قانون کا احترام کون کرے گا؟
کرپشن کی جڑیں بہت گہری اور بہت دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔اس تاریخی حقیقت سے جب تک آنکھیں بند رکھی جائیں گی کرپشن کا خاتمہ ممکن نہیں۔پنجاب کی صوبائی حکومت کوباقاعدہ ایک پالیسی کے وفاق کے خلاف پہلوان بنا کر کھڑا کیا گیا وفاقی وزیر محنت اسلام آباد نہیں جا سکتے تھے کہ ایئر پورٹ سے اسلام آباد کے درمیان پنجاب کی زمین سے گزرنا پڑتا اور پنجاب حکومت انہیں گرفتار کرنے پر تلی ہوئی تھی تاکہ وفاقی حکومت کو نیچا دکھایا جائے۔
سپریم کورٹ معزز پانچ رکنی بینچ ذرا پیچھے جا کر دیکھے تو اسے صاف نظر آئے گا کہ صرف 10روپے میں ایک شوگر مل شریف فیملی کے ایک سپوت کو دی گئی تھی۔دکھ کی بات ہے کرپشن کی سرپرستی نہایت اونچے مقام سے دہائیوں تک کی جاتی رہی ہے۔معزز عدالت دوسروں کی نسبت اس حقیقت سے زیادہ باخبر ہے جب من پسندسیاسی جماعتوں کو (ایئر مارشل)اصغر خان کیس والی بھاری رقوم فراہم کی جائیں تاکہ ناپسندیدہ جماعت کو ہرایا جائے تو کرپشن کو فروغ ملتا ہے۔پھر ہر سیاسی جماعت کرپشن کو اپنا حق سمجھنے لگتی ہے۔جب بھی موقع ملتا ہے جی بھر کے کرپشن کی جاتی ہے۔خرابی کو جڑ سے اکھاڑنے کی ضرورت ہے درخت کی ٹہنیاں کاٹنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔کرپٹ ذہنیت کا خاتمہ ضروری ہے۔میڈیا اطلاعات کے مطابق اگلے روز چار دہائیوں تک اصل حکمرانوں کی سرپرستی میں سیاست کے نام پر کھلی لوٹ مار میں مصروف ایک شخص اپنے اثاثوں کی فہرست نیب کے پاس دیکھ کر حیران رہ گیا تھا۔معزز عدلیہ کو چاہیئے کہ اس دروازے کو بند کرنے کے لئے غور و خوض کرے تاکہ لٹیرا سازی کے عمل کا سدباب ہوسکے۔ایک ہفتے کی مہلت ختم ہونے کے بعد اگر وفاق اور صوبے ایک یکساں پالیسی نہ لا سکے تب کیا ہوگا؟کیا معزز عدلیہ نے کرپشن کا جڑ سے خاتمہ کرنے والی یکساں پالیسی وضع کر سکے گی؟ کرپشن کرونا سے بڑی وباء ہے۔ملکی معیشت کو کینسر کی طرح کھا رہی ہے۔کورونا امداد کی تفصیل ملنے کے بعد کرپٹ لوگوں کو سزا دینا بھی ضروری سمجھا جائے۔
Load/Hide Comments