کورونا کے دریا میں کودنے کا فیصلہ
بہت دنوں سے بحث چل رہی تھی کہ کرونا وائرس اور بیروزگاری میں سے کون زیادہ خطرناک ہے۔ عمومی تاثر یہی رہا کہ وفاق بھوک اور بیروزگاری کو کرونا سے بڑا مسئلہ سمجھتا ہے جبکہ صوبے اس کے برعکس کورونا کو ملک کا مسئلہ نمبر ون گردانتے ہیں۔بالخصوص صوبہ سندھ لاک ڈاؤن میں نرمی کو مکمل تباہی قرار دیتا ہے۔اگلے روز پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے عہداروں نے کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ کراچی کے سرکاری اسپتالوں کے پاس صرف 66 وینٹی لیٹرز ہیں اور اگر کاروبار کی اجازت دی گئی تو خدشہ ہے کہ کورونا تیزی سے پھیلے گا جو فی الحال لاک ڈاؤن کی وجہ سے محدود پیمانے پر پھیل رہا ہے۔لیکن تین صوبوں نے معمولی فرق کے ساتھ کاروباری سرگرمیوں کی اجازت دینا مناسب سمجھا،تاریخ اور نوٹیفکیشن کے اجراء میں تاخیر کی وجہ سے تاجر برادری اور پولیس کے درمیان غلط فہمی یا کنفیوژن دیکھنے میں آیا، حتّیٰ کہ پنجاب میں بھی بعض مارکیٹیں اور دکانیں بند کرا دی گئیں۔سندھ میں تاجر برادری سے مذاکرات کے بعد پیر سے مارکیٹیں کھل جائیں گی۔ تاجر برادری نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ حکومتی طریقہ کار(ایس او پیز) پر پورے اہتمام کے ساتھ عمل کریں گے۔مگر پاکستانی عوام کے مزاج کو دیکھتے ہوئے امید نہیں کہ جو کہا جا رہا ہے اس پر عمل بھی کیا جا سکے گا۔ ماسک پہنے گھروں سے نکلنے والے لوگوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔دو افراد کے درمیان 6فٹ فاصلے پر عمل نہیں ہو رہااور یہ ممکن بھی نہیں۔ ایک موٹر سائیکل پر میاں، بیوی اور دو بچے بیٹھیں تو یہ شرط ایک مذاق محسوس ہوتی ہے۔ٹرانسپورٹ کے بغیر کاروباری اور صنعتی سرگرمیوں کی بحالی کا ایس او پیز کے ساتھ کیا جانے والا دعویٰ لاکھ بار دہرایا جائے مگر سوائے چند ایک مقامات کے کہیں نظر نہیں آتا۔
دوسری جانب وفاق اور صوبے ایک پیج پر نہیں، ان کے درمیان فاصلے ہیں بلکہ بعض معاملات میں کھلی مخاصمت دیکھی جا سکتی ہے۔ایسے ماحول میں پیر جو گوٹھ سے یہ خبر انتہائی چونکا دینے والی ہے کہ 350میں سے289افرادکے ٹیسٹ پازیٹیو آئے۔یعنی82فیصد لوگ کورونا سے متأثر نکلے، مقامی افراد میں یہ تناسب شاید سب سے زیادہ ہے۔صرف سندھ میں ایک ہی دن میں 1100نئے کیسزسامنے آنا اچھی خبر نہیں۔یہ بات تو پہلے ہی کہی جا رہی تھی کہ جیسے جیسے ٹیسٹ کرنے والوں کی تعداد بڑھے گی کورونا سے متاثرہ افراد کی تعداد بھی بڑھے گی۔نہ جانے کون سے گوٹھ اور کون سی شہری آبادی سے ایک ہجوم سامنے آئے،اور سب کچھ بہا کر لے جائے۔ سندھ حکومت کے خدشات درست نکلے۔لیکن اس کے یہ معنے بھی لئے جاسکتے ہیں کہ صرف لاک ڈاؤن بھی کورونا کی روک تھام کے لئے ناکافی ہے۔سوال یہ نہیں کہ اس خرابی کا ذمہ دار کون ہے؟ بنیادی سوال یہ ہے کہ اس خرابی سے کیسے نکلا جائے؟وائرس کب آیا؟ کیسے آیا؟کس کی نالائقی زیادہ تھی؟ کس کی کم؟ یہ ماضی کا حصہ ہیں، مستقبل میں جب فرصت ملے گی اس پر بات ہو جائے گی آج کا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان صرف کوروناکی لپیٹ میں نہیں اس کے ساتھ ہی شدید معاشی خرابیوں کا شکار ہے۔آئی ایم ایف کا مقروض ملک اپنا بجٹ بھی آئی ایم ایف کی مرضی کے مطابق بناتا ہے،بار بار ڈکٹیشن لینی پڑتی ہے۔ اپوزیشن ان پیچیدگیوں سے واقف ہے، اپوزیشن اگلے ماہ پیش کئے جانے والے بجٹ کے لئے عوام دوست تجاویز تیار کرے۔ کرونا سے نکلنے میں اپنا رہنمایانہ کردار ادا کرے۔جمہوریت میں (اگر واقعی جمہوریت ہوتو) اپوزیشن اگلی حکومت سمجھی جاتی ہے۔لیکن پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ چار دہائیوں تک وزارتِ اعلیٰ اور وزارتِ عظمیٰ کے مزے اڑانے والے شریف برادران بھی عوام کو یہ بتا رہے ہیں کہ کابینہ اور وزیر اعظم کا چناؤ انتخابات سے بہت پہلے کر لیا جاتا ہے۔ 2018کے انتخابات سے پہلے بھی یہی کام کیا گیا تھا۔اس سے پہلے منعقد ہونے والے انتخابات میں سے کسی کو ”چمک“ کسی کو ”انجنیئرڈ“ اور کسی کو خلائی مخلوق کا کرشمہ کہا گیا۔یہ تفصیل بچہ بچہ جانتا ہے،اس سے بھی جان چھڑانے کی ضرورت ہے۔معاشی بدحالی اسی فرسودہ اور ازکار رفتہ سوچ کی دین ہے دونوں ہی بنیادی مسائل ہیں۔دونوں سے نمٹناہے۔
مگر کورونا عالمی وباء ہے اس میں سیاسی اختلافات والی بحث کام نہیں آتی۔اس سے بلند ہوکر دیکھنا ہوتا ہے۔پیر جو گوٹھ سے مریضوں کی اتنی بڑی تعداد میں ایک ہی روز سامنے آنا توجہ طلب اور پریشان کن مسئلہ ہے۔پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے عہدیداران کا یہ انکشاف بھی تکلیف دہ ہے کہ کراچی کے سرکاری اسپتالوں میں صرف66وینٹی لیٹرز ہیں۔جبکہ کراچی کی آبادی صوبہ بلوچستان کی آبادی کے برابر ہے۔مگربلوچستان آدھے پاکستان کے رقبے پر پھیلا ہوا ہونے کی وجہ سے ان مسائل کا شکار نہیں جو کراچی میں کورونا کی بڑی تعداد سامنے پر کراچی میں اٹھ سکتے ہیں۔ کورونا کو کوئی فریق آسان مسئلہ نہ سمجھے۔انتہائی دانشمندی اوراعلیٰ پائے کی فہم و فراست سے کام لیا جائے۔ عوام کی جان بچانا پہلی ترجیح ہونا چاہیئے۔اب عید بھی سر پر ہے۔مارکیٹوں میں گاہکوں کا بے قابو ہجوم کیا گل کھلائے گا، کسی کو کچھ معلوم نہیں۔دنیا کاروبار کی طرف لوٹ رہی ہے پاکستان میں کاروبارکا تجربہ ایک مجبوری ہے۔یکساں پالیسی نہ سہی یکسانیت کے قریب تر تو نظر آئے۔دشمن ایک ہے،پورا ملک ایک ہوکر مقابلہ کرے تو نتائج بہتر آنے کی امید کی جا سکتی ہے۔عوام کو مایوس نہ کیا جائے۔مایوسی کی طرف نہ دھکیلا جائے۔
Load/Hide Comments