صدر غنی کا افغان فوج کو طالبان پر حملوں کا حکم

کابل:افغانستان کے صدر اشرف غنی نے فوج کو حکم دیا ہے کہ وہ دفاع کے بجائے طالبان اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے خلاف حملے کریں تاکہ عوامی مقامات کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔صدر غنی کا کہنا ہے کہ امن عمل کو آگے بڑھانے کے لیے فوج نے دفاعی پوزیشن اختیار کی ہوئی تھی لیکن اب وہ حکم دیتے ہیں کہ فوج دشمنوں کے خلاف جارحانہ حکمت عملی اپنائے۔افغان صدر کا یہ حکم ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب دارالحکومت کابل اور صوبے ننگرہار میں منگل کو دو واقعات میں کم سے کم 38 افراد ہلاک جب کہ درجنوں زخمی ہوئے تھے۔منگل کو سرکاری ٹی وی پر نشر ہونے والی تقریر میں افغان صدر نے کہا کہ عوامی مقامات کی سیکیورٹی اور طالبان سمیت دیگر دہشت گرد گروہوں کے حملوں کو روکنے کے لیے وہ فوج کو جارحانہ کارروائیوں کا حکم دے رہے ہیں۔منگل کو کابل کے ایک زچہ و بچہ اسپتال میں مسلح حملہ آوروں نے فائرنگ کر دی تھی، جس کے نتیجے میں خواتین اور بچوں سمیت 14 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ااسی روز صوبے ننگرہار میں ایک سابق پولیس اہلکار کی نماز جنازہ پر خود کش حملے میں کم سے کم 24 افراد ہلاک اور کئی زخمی ہو گئے تھے۔طالبان نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی تھی۔ البتہ طالبان ترجمان نے اشرف غنی کے اس اعلان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ افغان حکومت شروع دن سے ہی امن معاہدے کے خلاف تھی۔ننگرہار میں ہونے والے خود کش حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کی تھی۔امریکہ نے بھی کابل اور ننگرہار حملوں کی مذمت کی تھی۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ طالبان نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے ان کی مذمت کی ہے۔لہذٰا افغان حکومت اور طالبان کو مل کر ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے تک لانے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔امریکہ اور طالبان کے درمیان 29 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امن معاہدہ طے پایا تھا۔ جس کے تحت فریقین نے قیدیوں کا تبادلہ کرنا تھا۔ افغان جیلوں میں قید لگ بھگ پانچ ہزار طالبان قیدی جب کہ طالبان نے افغان حکومت کے ایک ہزار قیدیوں کو رہا کرنا تھا۔لیکن یہ معاملہ سست روی کا شکار ہے۔ طالبان کا یہ موقف رہا ہے کہ معاہدے کے تحت وہ امریکہ یا اس کی اتحادی فوج پر حملے نہیں کریں گے، لیکن افغان سیکیورٹی فورسز پر حملے جاری رکھیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں