چار دہائیوں بعد بھاشا ڈیم کی تعمیر
وفاق شاید کبھی نہیں مانے گا کہ اس کی ہٹ دھرمی اور بے جا ضد نے ملک اور عوام کوان ثمرات سے محروم رکھا جو قدرت نے بھاشا ڈیم کی صورت میں عطا کئے تھے اور ہیں۔اگلے روز وزیر اعظم عمران خان نے اپنی معاشی ٹیم سے خطاب کے دوران بھاشا ڈیم کی تعمیر فوری طور پر شروع کرنے کی ہدایت کی ہے انہوں نے کہاکہ بھاشا ڈیم کی تعمیر سے پاکستان کو بے شمار فائدے ہوں گے:
اول: وافر مقدار میں پانی دستیاب ہوگا اس کی گنجائش64لاکھ ایکڑ فٹ ہے،ملک میں پانی کی قلت12ملین ایکڑ فت سے کم ہو کر6.1ملین ایکڑ فٹ رہ جائے گی۔
دوم: 4500میگا واٹ سستی بجلی پیدا ہوگی۔آئی پی پیز سے مہنگی بجلی خریدنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
سوم: 12لاکھ20ہزار ایکڑ زمین سیراب ہوگی۔
چہارم: سیلاب کی تباہ کاریوں سے تحفظ ملے گا، یاد رہے سیلاب سے ہر سال اربوں ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔
پنجم: تربیلا ڈیم کی کی زندگی میں 35سال کا اضافہ ہوگا۔
ششم: 16ہزار سے زائد لوگوں کو روزگار ملے گا۔
ہفتم: سیمنٹ اور اسٹیل بڑی مقدار میں استعمال ہوگا اس سے ملکی صنعت کو فائدہ پہنچے گا۔
ہشتم: ترقی اور خوشحالی کے نئے دروازے کھلیں گے۔
وفاق نے بھاشا ڈیم کی تعمیر کا فیصلہ کم از کم 40سال بعد کیا ہے۔جنرل ضیاء الحق کے دور میں یہ ڈیم تعمیر کرنے کی منظوری دی جاتی تو ملک ایک جانب پانی کی شدید قلت سے بچ جاتا اور دوسری جانب ملک غیر ملکی قرضوں کی دلدل میں نہ پھنستا۔وفاق نے چالیس سال تک کالا باغ ڈیم تعمیر کرنے کی ضد جاری رکھی۔اس کے نتیجے میں وفاق اور صوبوں کے درمیان رنجشوں میں اضافہ ہوا تلخیاں بڑھیں جو فائدے آج وفاق نے تسلیم کئے ہیں ان کی نشاندہی خیبر پختونخوا کے قوم پرست رہنما نیشنل عوامی پارٹی (نیپ موجودہ اے این پی) کے سربراہ1973کا آئین پاکستان بنانے والے، خان عبدالولی خان جنرل ضیاء الحق کی موجودگی اور اپنی زندگی کے آخری سانس تک کرتے رہے تھے مگر وفاق میں نہ مانوں کی رٹ لگانے میں مصروف رہا۔اس دوران بھارت نے چھوٹے بڑے سینکڑوں ڈیم تعمیر کر لئے،اور اب پانی کو بھی پاکستان کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ جب چاہتا اپنا فاضل پانی پاکستان کی طرف(دریائے چناب میں) بہا دیتا ہے جو پاکستان سے سیلابی ریلا بن کر گزرتا ہے اور کھڑی فصلوں کی تباہی کا سبب بنتا ہے۔ اس سیلابی ریلے کو ذخیرہ کیا جانا چاہیے اس سے سیلاب کی تباہ کاریوں سے نجات مل سکتی ہے اور ذخیرہ شدہ پانی بے آب زمینوں کو سیراب کرنے کے کام آسکتا ہے۔روزگار کے نئے مواقع دستیاب ہو سکتے ہیں مگر اس کی منصوبہ بندی کون کرے؟یہ بنیادی کام عوام دوست سوچ کے بغیر نہیں کیا جا سکتا،اور سچ یہ ہے کہ عوام دوست سوچ کو پروان نہیں چڑھنے دیا گیا۔اس کے راستے میں طرح طرح کی رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔جس چین کی ہمالیہ سے بلند، سمندروں سے گہرے، فولاد سے زیادہ مضبوط اور شہد سے زیادہ میٹھی دوستی کے گیت گائے جاتے ہیں اس کے سفارت خانے والی گلی سے گزرنے والوں سے خفیہ پولیس کے اہلکار پوچھ گچھ کرتے تھے چیئر مین ماؤزے تنگ کی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کرنے والوں کو یونیورسٹیوں سے نکال دیا جاتا تھا، روزگار کے دروازے بند ہو جاتے تھے۔
اس موقعے پر بلوچستان کے ڈسٹرکٹ لسبیلہ کی تحصیل وندر میں تعمیرکئے جانے والے ”وندر ڈیم“ کی تعمیر کا سہرا اپنے سر باندھنے کی افسوسناک جنگ جنگ لڑی جارہی ہے،ایک سیاست دان کا دعویٰ ہے کہ انہوں پی پی پی کے دور میں صد رآصف علی زرداری کے ہاتھوں اس ڈیم کا سنگ بنیاد رکھوایا تھا،جبکہ حقیقت یہ ہے وندر ڈیم کا سنگ بنیاد جنرل محمد ایوب خان نے اپنے ہاتھوں سے اپنے دور حکومت میں رکھا تھا۔ جس ملک میں بے خبری کا یہ عالم ہو وہاں دیر تک بھوک رقص کرتی رہے گی، افلاس، بیماری، جہالت کا راج رہے گا۔جھوٹ بول کربینر لگا کر تاریخی حقائق جھٹلانا کسی مہذب معاشرے میں قابل فخر رویہ نہیں سمجھا جاتا۔اسی طرح بھاشا دیامیر ڈیم کے سنگ بنیاد رکھے جانے کا معاملہ بھی ہر حاکم نے اپنے نام کرنے کی کوشش کی ہے۔جنرل پرویز مشرف، نواز شریف اور عمران خان کے علاوہ بھی بعض نام سامنے آتے ہیں۔
البتہ روزنامہ”انتخاب“کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے ہر دور میں ”وندر ڈیم“ کی تعمیر کے لئے حکمرانوں کو یاددہانی کرانے کا سلسلہ جاری رکھا۔اس کے اداریئے ریکارڈ کا حصہ ہیں۔یہ علاقے کے عوام کا حق ہے جو بہت تاخیر سے دیا جا رہا ہے۔ابھی اس ڈیم کی تعمیر کا آغاز نہیں ہوا ابھی مزیدکئی سال لگیں گے،لیکن امید کی جانی چاہیے کہ اس کام میں مزید تاخیر نہیں ہوگی۔لسبیلہ کے عوام کا حق ہے کہ انہیں کھیتی باڑی اور پینے کے لئے پانی فراہم کیا جائے اور بلوچستان میں جہاں بھی پانی کا ذخیرہ کیا جانا ممکن ہو اسے اولین ترجیح سمجھ کر کیا جائے۔ پانی کے بغیر زندگی کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ قدرت کا عظیم عطیہ ہے اسے ضائع کرنے والی اقوام صفحہئ ہستی سے مٹ جاتی ہیں۔وفاق اور صوبے سب ہی کو یہ اصول ہر وقت یاد رہنا چاہیے۔زیادہ سے زیاہ ڈیم تعمیر کئے جائیں۔
Load/Hide Comments