تعلیم کو اہمیت دی جائے

اداریہ
؎توقع تھی کہ وفاق اور صوبے باہمی مشاورت سے کوئی ایسا حل تلاش کر لیں گے جس سے طلباء و طالبات کا تعلیمی سال ضائع ہونے سے بچ جائے گااور نئے سال کی تعلیم براہ راست شروع ہو سکے گی۔پہلی سے آٹھویں تک امتحانات ہر اسکول اپنے پڑھائے گئے نصاب کے مطابق خود ہی لیتا ہے اور نتائج بھی خود ہی مرتب کرتا ہی اس لئے حکومت کی جانب سے کئے جانے والے اس فیصلے میں بظاہر کوئی قباحت نظر نہیں آتی کہ امتحانات کا تکلّف نہ کیا جائے اور امتحان لئے بغیر اگلی جماعت میں ترقی دے دی جائے۔لیکن نویں جماعت سے بارہویں جماعت تک امتحان سیکنڈری اور ہایئر سیکنڈری ایجوکیشن بورڈز کی ذمہ داری ہے۔یہاں امتحان لئے بغیر اگلی کلاسز میں پروموٹ کرنے کے راستے میں قانونی رکاوٹیں حائل ہیں۔قانون سازی کی ضرورت پڑے گی۔اس قسم کے قوانین کسی وقتی پریشانی کا عارضی حل سمجھے جاتے ہیں اس لئے انہیں منظور کرانے میں حکومتوں کوکوئی دشواری نہیں ہوتی ایک آرڈیننس سے ہی کام چلا لیا جاتا ہے اور ایسے آرڈیننس اسمبلی میں کسی بحث مباحثت کے بغیر بآسانی منظور کرالئے جاتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ احسن طریقہ نہیں سمجھا جاتا۔حالانکہ امتحانات میں جس بڑے پیمانے پر نقل کی یا کرائی جاتی ہے اس کی موجودگی بورڈز کی نگرانی میں کرائے گئے امتحانات کو امتحان کہنا بھی اپنی جگہ سوالیہ نشان ہے لیکن امتحان لئے بغیر اگلی کلاسز میں بھیجنا زیادہ مشکل معاملہ ہے۔لیکن کورونا جیسی وباء نے پوری دنیا کو گھروں میں قید رہنے پر مجبور کر دیا ہے پاکستان بھی کوئی بڑا خطرہ مول لینے کی پوزیشن میں نہیں۔عالمی ادارہ صحت کی جاری کردہ ایس اوپیز کی خلاف ورزی پر تادیبی کارروائی بھی ہو سکتی ہے۔
مگر وفاق اور صوبوں کو چاہیئے کہ تعلیم کے شعبے کو غیر اہم سمجھ کر محض کچھ لوگوں کو ملازمتیں فرہم کرنے تک محدود نہ کیا جائے بلکہ آج جدید ٹیکنالوجی کا دور ہے آئندہ کوئی نااہل اور نالائق شخص ڈھنگ سے چپڑاسی کا کام بھی نہیں کرسکے گا۔اب ہر کام کمپیوٹر سے ہوکر گزرتا ہے۔کاریں آٹو میٹک اور کمپیوٹرائزڈ ہونے کی وجہ سے موٹر مکینک بھی کمپیوٹرکو چلانا سیکھنے پر مجبور ہیں اور اس کے لئے انگلش کا جاننا ازحد ضر وری ہے۔ چنانچہ ہمارے پالیسی سازوں کوپرانی روش ترک کرکے تعلیم کو اس کا درست اور جائزمقام دینا ہوگا۔پی ٹی آئی نے عوام سے تعلیمی اصلاحات کا وعدہ کیا ہوا ہے اس ضمن میں اس کے وزیر تعلیم کافی بھاگ دوڑ بھی کر رہے ہیں لیکن تاحال وہ اپنی پالیسی صوبوں سے منوانے میں اس حد تک کامیاب نہیں ہوئے کہ اس کا باضابطہ اعلان کر سکیں۔صوبوں کے اعتراض دور کئے بغیر اگر زبردستی ایسا نصاب مسلط کرنے کی کوشش کی گئی جس میں صوبائی تہذیب و ثقافت کو نظر انداز کرکے ماضی کی طرح اجنبی ہیروز اورمسخ شدہ تاریخ متعارف کرائی گئی تو کسی صورت قابل قبول نہیں ہوگی۔ایک نئی لڑائی شروع ہو جائے گی۔یہ معاملہ میانوالی میں ایک یونیورسٹی قائم کرنے اور غیر ملکی نصاب من و عن پڑھانے سے قطعی مختلف ہے۔ تاریخ کو اس طرح نہ پڑھایا جائے کہ بچے اپنی تہذیب و ثقافت کے بارے میں کچھ نہ جان سکیں۔ اگر جلیانوالہ باغ میں انگریز ی فوج کا واقعہ پڑھایا جائے تو ماڈل ٹاؤن (لاہور) میں پولیس کی بربریت کا بھی نصاب کا حصہ بنایا جائے۔کراچی کی ایک فیکٹری میں بھتہ نہ دینے کی پاداش میں سینکڑوں مزدوروں کوزندہ جلانے کی واردات کو بھی شامل کیا جائے۔
اساتذہ کی تربیت کا معقول پروگرام چاروں صوبوں میں یکساں طور پر نافذ کیا جائے۔گھوسٹ اسکولز اور گھوسٹ اساتذ ہ کی موجودگی کوسنگین جرم قرار دیا جائے اور ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر کو صرف کاغذوں کی حد تک اس کا ذمہ دارنہ سمجھا جائے بلکہ عملاً اسے سزا بھی دی جائے۔آئندہ نسل کو تعلیم سے محروم رکھنا ناقابل معافی جرم ہے۔یہ بھی طے کیا جائے کہ تعلیمی فنڈز کو کسی دوسری مد میں خرچ کرنے کی کسی صورت اجازت نہیں ہوگی۔اس کا خمیازہ قوم بھگت رہی ہے۔اساتذہ کی اکثریت مطلوب معیار کے مطابق درس و تدریس کی اہلیت نہیں رکھتی خصوصاً ریاضی، سائنس اور انگلش پڑھانے والے اساتذہ کی شدید کمی ہے اس کمی کو دور کیا جائے۔18ویں ترمیم کو منظور ہوئے 10سال ہو چکے ہیں تعلیمی شعبے کی ناقص کارکردگی صوبائی حکومت کے کھاتے میں درج ہونی چاہیئے۔10سال میں نقل کا ناسور ختم نہیں کیا گیااساتذہ کی حاضری یقینی بنانا آج بھی ایک مشکل کام سمجھا جاتا ہے۔ کورونا کے نام پر جو کچھ کیا جائے یہ سوچ کر کیا جائے کہ کل ان طلباء و طالبات کو فیلڈ میں اپنی ذمہ داری سنبھالنی ہے۔کسی نے انجنیئر کی جگہ کام کرنا ہے اور کوئی ڈاکٹر یا نرس بن کر انسانی جانوں کی حفاظت جیسی اہم ذمہ داری سنبھالے گا۔کسی نے صنعت کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔معاشرے کے ترقی اور خوشحالی تعلیمی شعبے پر انحصار کرتی ہے۔اس شعبے کو بھرپور توجہ کی ضرورت ہے۔ کل کے حکمران بھی آج ہی کے طلباء ہوں گے جو آج انہیں سکھایا جائے گا کل وہی کچھ یہ لوٹائیں گے۔انہیں نقل اور دھوکا دہی سکھائی جائے گی تو کہ یہ نیب کے سامنے کھڑے دکھائی دیں گے۔ اچھی تعلیم اور اچھی تربیت فراہم کی جائے تاکہ کل اچھے حکمران مل سکیں۔کورونا سے جو فرصت ملی ہے اسے تعلیمی شعبے کو بہتر پالیسی دینے کے کارآمد بنایا جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں