اگر عدلیہ اور انتظامیہ اپنی حدود سے تجاوز کرتی ہے تو ملک میں فکری اضطراب آئے گا، مولانا فضل الرحمن

کوئٹہ (این این آئی)جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ اگر عدلیہ اور انتظامیہ اپنی حدود سے تجاوز کرتی ہے تو ملک میں فکری اضطراب آئے گا۔بلوچستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آئین کا بنیادی ڈھانچے کے 4 ستون ہیں جن میں، اسلام، جمہوریت، پالیمانی طرز حکومت اور وفاقی نظام شامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر کوئی آئین کے دائرہ کار سے تجاوز کرتا ہے اور ایک ادارہ کو طاقت ور اور تمام اداروں کو کمزور سمجھتا ہے، عدلیہ اور انتظامیہ اپنی حدود سے تجاوز کرتی ہے تو ملک میں فکری اضطراب آئے گا۔انہوں نے عالمی برادری پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ عالمی اداروں اور عالمی معاہدات کے تحت پاکستان جیسے ممالک کو معاشی، اقتصادی اور دفاعی حوالے سے کنٹرول کیا جاتا ہے، اقوام متحدہ، جنرل اسمبلی، سلامتی کونسل، جینوا انسانی حقوق کمیشن جیسے عالمی ادارے ترقی پزیر ممالک کو کنٹرول کرتے ہیں اور پاکستان بھی اسی فہرست میں شامل ہے۔انہوں نے کہا کہ عالمی ادارے آپ اپنی رائے ہم پر مسلط کرتے ہیں، دفاعی لحاظ سے فوج ہماری ہے تاہم عالمی قوتوں کا دباؤ ہمیشہ رہتا ہے، عالمی اداروں کو اسرائیل اور بھارت کے پاس سیکڑوں ایٹم بم ہونے پر کوئی اختلاف نہیں لیکن پاکستان پر مسلسل دباؤ ڈالاجاتا ہے، پاکستان کو اپنے حقوق کے حصول کیلئے اکثر بیرونی طاقتوں کی جانب سے نشانہ بنایا جاتا ہے، یہ عالمی سطح پر غریب پسماندہ اور ترقی پزیر ممالک کو غلام رکھنے کا طریقہ ہے۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ قومی سطح پر ہماری سوچ کی صلاحیت چھین لی گئی ہے، کہا جاتا ہے کہ کیا فوج مزید غیر جانبدار رہے گی؟ خود ہی اندازہ لگا لیں کہ فوج نے غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ فروری میں ہی کرلیا تھا، جب اس سے پہلے آپ جانبدار تھے اور 3 بار مار مارشل لا لگایا تو آپ کو کس نے پوچھا تھا؟ کیا یہ آپ کا اختیار ہے کہ جب آپ چاہیں مارشل لگائیں، جب چاہیں اپنی مرضی کی حکومت بنائیں اور دھاندلی کریں اور جب چاہیں نیوٹرل بن جائیں؟جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ نے کہا کہ 70 سال پہلے ہم طاقتور تھے اور 70 سال بعد ہم کمزور ہوچکے ہیں، ملک میں معاشی استحکام کے ساتھ دفاعی استحکام بھی ضروری ہے، ایسے کبھی حالات پیدا نہیں ہونے چاہئیں کہ سیاستدان فوج کو اپنے ملک میں رکاوٹ تصور کریں، فوج ایک ادارہ ہے اگر وہ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں تک محدود رکھتے ہیں تو ہم حمایت کرتے ہیں۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ جب امریکا کے ساتھ تعلقات خراب ہوجاتے ہیں تو بولا جاتا ہے کہ پاکستان تنہا ہوگیا ہے اصل میں ایسا تب ہوتا ہے جب پاکستان علاقائی سطح پر تنہا ہو، افغانستان، بھارت، اور ایران کو ہم مستقل دوست نہیں بنا سکے، اس صورتحال میں ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کا تعین کرنا چاہیے ہمیں اپنے مفادات تعین کرنا چاہیے1973 کے آئین کے تحت صوبوں کو محدود پیمانے پر اختیارات دیے گئے اور 18 ویں ترمیم میں صوبوں کو بہت زیادہ اختیارات دیے گئے لیکن آج بھی اس پر مکمل طور پر عمل درآمد نہیں ہوسکا، صوبہ اپنے وسائل کا خود مالک ہو، کوئی دوسرا صوبہ اس پر کنٹرول نہ کرسکے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں