فیروز بلوچ کو منظر عام پر نہ لانا تشویشناک ہے.بلوچ طلبا

بلوچ سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے مرکزی ترجمان نے تنظیم کے سابق وائس چیئرمین فیروز بلوچ کی ماورائے عدالت گرفتاری کو ایک برس کا عرصہ مکمل ہونے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فیروز بلوچ کو ایک سال کی اسیری کے باوجود منظر عام پر نہ لانا نہایت ہی تشویشناک ہے.
انھوں نے کہا کہ گُزشتہ سال 29 مئی کو فیروز بلوچ اور اُن کے قریبی رشتہ دار جمیل بلوچ عید کی چھٹیاں گزارنے اپنے آبائی علاقہ پنجگور جا رہے تھے جب انھیں قلات کے مقام سے جبری طور پر گرفتار کیا گیا. تنظیم کی جانب سے مرکزی عہدیدار کی جبری گمشدگی کیخلاف شدید احتجاج کیا گیا اور حکومتِ وقت سے اپیل کرنے پر جمیل بلوچ کو چند ماہ بعد بازیاب کیا گیا جبکہ فیروز بلوچ کو آج تک منظر عام پر نہیں لایا گیا.
فیروز بلوچ ایک تعلیم دوست انسان ہیں اور انھوں نے ہمیشہ ہی علم کے شمع کو بلند کیے رکھا.انجینئرنگ کی ڈگری مکمل ہوتے ہی انھوں نے بلوچستان یونیورسٹی میں شعبہ بلوچی میں داخلہ لیکر اپنی تعلیمی تسلسل کو برقرار رکھا. ایک سال کی جبری گُمشدگی کی وجہ سے اُن کا تعلیمی تسلسل جمود کا شکار ہے جو کہ نہایت ہی تشویشناک ہے.
انھوں نے مزید کہا کہ تنظیم کے سابق مرکزی عہدیدار کی دیرینہ عرصے سے گمشدگی طُلبا سیاست پر قدغن کے مترادف ہے. اِس طرح کے واقعات طالبعلموں میں خوف و ہراس اور تعلیمی اداروں میں گھٹن جیسی فضا قائم کرتی ہیں جس کی وجہ سے طالبعلموں کے علمی, تخلیقی اور سیاسی صلاحیتیں مانند پڑ جاتی ہیں. لہذا ضرورت اس امر کی ہے طلبا سیاست پر جاری قدغن کو ختم کیا جائے اور فیروز بلوچ سمیت دیگر سیاسی اسیران کو جلد از جلد بازیاب کیا جائے.
اپنے بیان کے آخر میں انھوں نے کہا کہ فیروز بلوچ کی جبری گمشدگی کو ایک برس کا عرصہ مکمل ہونے پر تنظیم کی جانب سے اُنکی بازیابی کےلیے ایک آنلائن کمپین کا اعلان کیا گیا ہے.تمام طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے افراد سے کمپین کا حصہ بن کر اسے کامیاب بنانے میں کلیدی کردار ادا کرنے کی درخواست کی جاتی ہے.

اپنا تبصرہ بھیجیں