اسرائیل سے تجارات کا فیصلہ کابینہ کا ہے، نیشنل سیکورٹی کونسل کا یا بند کمرے میں کیا گیا، بابر اعوان

لاہور : تحریک انصاف کے مرکزی رہنما ڈاکٹر بابر اعوان نے کہا ہے کہ جو اطلاعات سامنے آئی ہیں اس کے مطابق اسرائیل کے ساتھ تجارت شروع ہوگئی ہے، یہ کابینہ، نیشنل سیکورٹی کونسل، پارلیمنٹ وزارت خارجہ کا فیصلہ ہے یا بند کمرے کا کوئی فیصلہ ہے؟، یہ محمد علی جناح کے کاز سے غداری ہے، آج ہاﺅس آف فیڈریشن کے ٹوٹنے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں، اگر آئین کو متنازعہ بنا دیا گیا اور ہاﺅس آف فیڈریشن کو توڑ دیا گیا تو کیا نواز شریف میں ہمت ہے کہ وہ دوبارہ سے یہ آئین بنا سکیں، آپ کی کوئی ساکھ ہے جو صوبے تمہارے کسی فارمولے پر متفق ہوسکیں گے، فرائنگ پین کی استری والے آئین کو کوئی تسلیم کرے گا؟، ملک میں آئین معطل ہوئے بغیر انتخابات آگے نہیں جا سکتے اور قوم آئین کو معطل کرنے والوں کو دیکھ لے گی اورہم بھی اس کو دیکھ لیں گے کہ کس طرح آئین معطل کرتا ہے،تحریک انصاف آئی تو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور آرٹیکل 6کے ملزمان کو قانون کے کٹہرے میں بھجوایا جائے گا۔پارٹی کے مرکزی رہنما سینیٹر اعجاز چوہدری اور مسرت جمشید چیمہ کے ہمراہ پارٹی دفتر میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈاکٹر بابر اعوان نے کہا کہ پاکستان میں پہلی دفع ہوا ہے کہ لوگ آٹے کی لائنوں میں لگ کر اپنی جان دے رہے ہیں ، تھوڑے دنوں بعد آئے گا پیسے ختم ہو گئے ہیں، جتنی جلدی پیسے ختم ہوں گے اتنی جلدی یہ ہضم ہوتے ہیں اور اس سے تیزی سے بیرون ملک منتقل ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج جو حالات ہیں وہ تو سب کے سامنے ہیں اب معیشت کامیلٹ داﺅن شروع ہونے والا ہے ،اس وقت کیا صورت ہو گی کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا ۔ انہوںنے کہاکہ بعض پیڈ کنٹنٹ والے کہہ رہے ہیں آئین میں کہاں لکھا ہوا ہے انتخابات نوے روز میں ہوں گے ۔ جب جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن کا معاملہ تھا تو اس وقت قانون بنا تھا یا آئین میں ترمیم ہوئی تھی ؟۔انہوں نے جو قانون بنایا ہے اس کے تین حصے ہیں کہ نوے دن میں الیکشن نہیں ہونا چاہیے ، اس سے سینیٹ ٹوٹے گا کیونکہ سینیٹ میں وفاق اور چاروں صوبوں کی برابر نمائندگی ہے ، اسے ہاﺅس آف فیڈریشن کہتے ہیں ،ا گر نوے روز میں الیکشن نہیں ہوتے تو اگلے سال فروری یا مارچ میں سینیٹ کے جو انتخابات ہونے ہیں ،چیئرمین سینیٹ ،ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نہیں ہوں گے ،پچاس فیصد سینیٹرز ریٹائر ہونے ہیں تو پھر سینیٹ ٹوٹ گیا ، یہ ضیاءالحق کے بعد دوسری بار سینیٹ ٹوٹے گا اور ہم دوسری بار بھگتیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں