کیا واقعی سب کچھ بیچنے کی نوبت آ گئی ہے؟

اداریہ
حکو مت نے پاکستان اسٹیل مل سے 9100ملازمین کو ایک مہینے کے نوٹس پر گولڈن ہینڈشیک (23لاکھ روپے یکمشت فی کس) دے کر فارغ کرنے اور پھر سپریم کورٹ کی مشاورت یا ہدایت کے ساتھ اسے کسی نجی مالک کے ہاتھ فروخت کردیا جائے گا۔اس کے بعد پی آئی اے کے ساتھ بھی یہی فارمولہ آزمایا جائے گا۔پھر ایئر پورٹس کی نجکاری ہوگی۔ماہر معیشت قیصر بنگالی نے اس ضمن میں انکشاف کیا ہے کہ چارایئر پورٹس(غالباً کراچی، لاہور ، اسلام آبادایئر پورٹس) اور گوادرایئر پورٹ کو فروخت کیا جارہا ہے۔گوادر پورٹ کا91فیصد، جبکہ بینکوں کے 80فیصد شیئر فروخت کر دیئے جائیں گے،ٹیلی کام کا شعبہ 100فیصد فروخت کیا جا رہا ہے۔مسلم لیگ نون کے دور میں بھی ایسی ہی اطلاعات لیک ہوئی تھیں لیکن اس کے کچھ عرصہ بعد وزیر اعظم نواز شریف پانامہ لیکس میں اثاثہ جات ڈیکلیئر نہ کرنے اوریو اے ای میں اپنے صاحب زادوں کی کمپنی میں ملازمت اور اقامہ رکھنے کے الزام(یا جرم) میںسزائے قید بھی سنا دی گئی ،اب ان کی جانشین پی ٹی آئی ان کے چھوڑے ہوئے کام کو آگے بڑھا رہی ہے بلکہ بڑی سرعت کے ساتھ پایۂ تکمیل تک پہنچا رہی ہے۔کورونا نے اس کام کے لئے فضاء مزید سازگار بنا دی ہے۔عوام کی معاشی حالت پہلے ہی اتنی خراب ہے کہ اس کو ایسی خبروں سے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔اسے اس سے کوئی غرض نہیں کہ یہاں بوم بسے یا ہما رہے۔دال روٹی کے ساتھ پینے کے پانی کا حصول بھی عام آدمی کے لئے دن بدن پریشان کن ہوتا جا رہا ہے ۔ کراچی جیسے صنعتی اور کما کر دینے والے شہر میں لوگ پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ گٹر لائنیں صاف کرنے والے غائب ہیں۔گندا بدبودار پانی سڑکوں پر ندی نالوں کی طرح بہہ رہا ہے۔یہی حال ملک کے دوسرے بڑے شہروں کا ہے۔ایسے حالات میں کیسا احتجاج اور کیسی تحریک؟ اپوزیشن اپنے مسائل میں پھنسی ہوئی ہے۔کوئی پرسان حال نہیں۔
سوال یہ ہے کہ جب ملک کی آمدنی کے سارے وسائل غیر ملکیوں کو بیچ دیئے جائیں گے تو ملکی خزانے میں پیسہ کہاں سے آئے گا اور کون جمع کرائے گا؟غیر ملکی سارامنافع آن لائن اپنے ملکوں میں ٹرانسفر کر دیں گے۔معاہدوں کی شرائط سرکاری راز کہہ کر فائلیں الماریوں میں بند کر دی جائیں۔مستقبل کی حکومت اگر پی ٹی آئی سے مک مکا کرکے نہ آئی تو یہ معاہدے عوام دیکھ سکیں گے اور اپنے نصیبوں کو کوسیں گے کہ اللہ نے انہیں کیسے بے رحم حکمرانوں کے حوالے کر دیا تھا؟قدرت اگر ہوا خود فراہم نہ کرتی تو عام آدمی سانس لینے کے قابل نہ ہوتا۔پانی بھی قدرت کی عطا کردہ نعمت ہے لیکن اس کا ذخیرہ کیا جا سکتا ہے، اسے پائپ لائن کے ذریعے سپلائی کیا جاتا،اسے پلاسٹک کی بوتلوں میں بھر کے بیچا جا سکتا ہے۔سچی بات ہے کہ پینے کا پانی عام آمی کی دسترس سے باہر ہوچکا ہے۔کراچی کی طرح پانی مافیا اتنی طاقت ور ہے کہ گورنر پنجاب چوہدری سرورپی ٹی آئی سے تعلق رکھنے اور وزیر اعظم عمران خان کے قریب ہونے کے باوجوداس کے سامنے بے بس ہیں۔ لیاری والے پی پی پی کا مضبوط قلعہ کہلاتے تھے۔10سال تک پانی سمیت مختلف مسائل کا شکار رہنے کے بعد ناراض ہیں۔ یہ مضبوط قلعہ پی پی پی کے ہاتھ سے نکل گیا۔گزشتہ دہائیوں میں نفسانفسی کی وباء نے تمام سیاسی اقدار کو ملیامیٹ کردیاہے ۔قائدین کا اپنی پارٹی کارکنوں سے رابطہ ، قربت اور اپنائیت کا رشتہ ختم ہو کر رہ گیا ہے،ان کے درمیان اونچی اونچی دیواریں حائل ہیں۔ صرف جسمانی دوریاں پیدا نہیں ہوئیں دلوں میں رنجشیں اورکدورتیں بھی پل رہی ہیں ۔کورونا نے فاصلے مزید بڑھا دیئے ہیں۔ان حالات میں غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک اور ذہین و فطین ،نڈراورنابغۂ روزگارسیاستدان کی ضرورت ہے جو اپنے گردلوگوں کو جمع کرے اور متبادل قیادت کے طور اپنی جگہ بنائے تاکہ حکومت جان لے کہ اس مادر پدر آزادی حاصل نہیں۔حکومت کو معلوم ہو کہ عوامی حقوق پر سمجھوتہ اسے بہت مہنگا پڑے گا۔مک مکا کی سیاست نے حکومتوں کے دل سے یہ خوف ختم کر دیا ہے۔باریوں کا سیاسی کلچر ملک میں پروان چڑھا اور آج اپنے مسائل میں خود ہی گھرا ہوا ہے۔
آج کارل مارکس جیسے دانشور کی ضرورت ہے جو تاریخی ارتقائی مسائل اور معاملات کا آج کے معروضی حالات میں جائزہ لے،آج کے بدلتے ہوئے سماجی رشتوں پر غور کرے اور عام آدمی کی فلاح و بہبود اور بقاء کے نے راستوں کا کھوج لگائے۔ولادی میرلینن جیسے مخلص، عوام دوست اور محنتی رہنماء جیسی شخصیت کی اشد ضرورت ہے جو علمی اور سیاسی اور قیادت کے خلاء کو پر کرنے کی بیک وقت صلاحیت سے مالامال ہو۔عوام کی علمی تعلیم و تربیت سرے سے ختم ہو کر رہ گئی ہے۔سیاستدانوں کی موجودہ کھیپ میں ایک بھی ایسا نام دکھائی نہیں دیتا جس نے پاکستان کے مخصوص تناظر میں چند صفحات لکھے ہوں یا لکھ سکتا ہو۔زبانی کلامی باتوں پریس کانفرنسوں اور رٹے رٹائے جملوں یا جذباتی نعرے بازی اپنی افادیت کھو چکے ہیں۔سنجیدہ تجزیئے اور پر مغز تحریروں سے عوام کے فہم و ادراک میںایسے اضافے کی ضرورت ہے جو اس میں جینے کی امنگ اور موجودہ دشواریوں سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ پیدا کرے۔طویل عرصے سے یہ کام بند ہے یا نہ ہونے کے برابر ہے۔نوجوان نسل کو علم و آگاہی درکار ہے اس جانب دیکھنے اور اس خلاء کو پر کرنے پر توجہ دی جائے۔معاملہ ملکی اثاثے فروخت کرنے اور قرضے اتارنے تک جا پہنچا ہے۔ ماہر معیشت قیصر بنگالی نے جو انکشافات عوام کے سامنے پیش کئے ہیںان کے معاشی اور سیاسی مضمرات پر سنجیدہ غور نہ کیا گیا توان کے منفی اثرات سے نکلناانتہائی مشکل ہوجائے گا۔ شاید نکلنے کی سکت ہی نہ رہے۔ ہر فیصلہ سوچ سمجھ کر کیا جائے اور ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھایا جائے۔یاد رہے کہ تاریخ کے فیصلے بڑے بے رحم ہوتے ہیں۔جب پاکستان کے تمام اہم اثاثے غیر ملکی کنٹرول میں چلے جائیں گے تو اس کے بعد ملکی خود مختاری نام کی کوئی شے نہیں بچے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں