آف شور کمپنی بنانا کوئی جرم نہیں، نامزد 436 افراد کو سنے بغیر فیصلہ کیسے کیا جاسکتا ہے، سپریم کورٹ

اسلام آباد (انتخاب نیوز) سپریم کورٹ آف پاکستان کے جسٹس سردار طارق مسعود نے پاناما پیپرز میں نامزد 436 افراد کیخلاف جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے سے متعلق درخواست سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ آف شور کمپنی بنانا کوئی جرم نہیں۔ جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس امین الدین خان پر مشتمل سپریم کورٹ کی دو رکنی بینچ نے پاناما پیپرز میں 436 پاکستانیوں کے خلاف تحقیقات کی امیر جماعت اسلامی سراج الحق کی درخواست پر سماعت کی۔ خیال رہے کہ 3 نومبر 2017 کو جماعت اسلامی نے ایک درخواست کے ذریعے عدالت کو جماعت کے امیر سراج الحق کی جانب سے اگست 2016 میں دائر کی گئی زیر التوا درخواست کی یاد دہانی کرائی تھی۔ سماعت کے دوران جماعت اسلامی کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ پاناما پیپرز میں شامل افراد کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے جس پر تاہم جسٹس سردار طارق مسعود نے سوال اٹھایا کہ جب اس معاملے کے لیے دیگر اداروں سے رجوع کیا جا سکتا ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ دوران سماعت عدالت نے استفسار کیا کہ پاناما میں شامل 436 افراد میں کاروباری لوگ بھی ہیں، کیا انہیں بھگانا چاہتے ہیں، عدالت پانامہ میں نامزد 436 افراد کو سنے بغیر فیصلہ کیسے کرے؟ جسٹس سردار طارق نے ریمارکس دیے کہ آف شور کمپنی بنانا کوئی جرم نہیں، اس وقت ایک ہی خاندان کے خلاف کیس چل رہا تھا، وہ بھی پاناما کا معاملہ ہے یہ بھی پاناما کا معاملہ ہے، اس وقت آپ کے اس عدالت کے سامنے کیوں نہ کہا یہ سب لوگوں کا معاملہ ہے ساتھ سنا جائے، اس معاملے پر عدالت کا کندھا استعمال نہ کریں۔ جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیتے کہ وکیل جماعت اسلامی بتائیں اب اس معاملہ کا کیا کرنا ہے، سات سال سے معاملہ سپریم کورٹ میں پڑا رہا کیا صرف ایک خاندان کے خلاف کیس چلوانا تھا، سات سال سے آپ کو اس کیس میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ عدالت نے کہا کہ پہلے وکیل جماعت اسلامی بتائیں اپنی درخواست کو ڈی لنک کیوں کروایا، پانچ رکنی بینچ سے اتنا بڑا ریلیف کیوں نہیں لیا۔ وکیل جماعت اسلامی نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں پاناما میں 436 لوگوں کی بھی تحقیقات ہو۔ جسٹس سردار طارق نے ریمارکس دیے کہ آپ قانون کو کیوں بائی پاس کرنا چاہتے ہیں، کیا باقی تمام اداروں کو بند کردیں، کیا سارے فیصلے سپریم کورٹ سے کروانے ہیں۔ جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ آف شور کمپنی بنانا کوئی جرم نہیں، آف شور کمپنیاں کیسے بنائی گئیں وہ ادارے دیکھیں گے۔ جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ ہم کوئی از خود نوٹس نہیں لیں گے، بہت سی باتیں کرنے کو دل کرتا ہے نہیں کریں گے۔ جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ آپ کو سات سال بعد یاد آیا کہ عوامی مفاد کا معاملہ ہے، اس وقت ایک ہی خاندان کے خلاف کیس چل رہا تھا، وہ بھی پاناما کا معاملہ ہے یہ بھی پاناما کا معاملہ ہے، اس وقت آپ کے اس عدالت کے سامنے کیوں نہ کہا یہ سب لوگوں کا معاملہ ہے ساتھ سنا جائے۔ عدالت نے کہا کہ اس معاملے پر عدالت کا کندھا استعمال نہ کریں ، اس وقت یہ معاملہ آپ کی استدعا پر ڈی لیسٹ کیا گیا، میں کہنا نہیں چاہتا مگر یہ مجھے کچھ اور ہی لگتا ہے، اس وقت بینچ نے آپ کو اتنا بڑا ریلیف دے دیا تھا،آپ نے اس بنچ کے سامنے کیوں نہیں کہا کہ اس کو ساتھ سنیں، آپ نے سات سال میں کسی ادارے کو درخواست کی کہ تحقیقات کی جائیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں