لورلائی، ہسپتال میں ڈاکٹرو طبی عملہ غیر حاضر، طبی امداد نہ ملنے پر خاتون جاں بحق

لورالائی: کڑوروں روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والا ٹیچنگ ہسپتال غریب عوام کے لئے علاج معالجہ کی سہولت کے بجائے موت کا سبب بنے لگا سول ہسپتال کا شعبہ حادثات ڈاکٹروں کے بجائے ٹرینرز چلانے لگے گذشتہ روز ساری زندگی محکمہ صحت میں ڈرائیوری کرنے والے شائستہ خان استاد کی اہلیہ لورالائی ٹیچنگ ہسپتال کے شعبہ امراض قلب وارڈ میں ڈاکٹرز اور عملہ نہ ہونے کے وجہ سے اپنی زندگی کی بازی ہار گئی جانبحق ہونے والی خاتون کے بیٹے عارف جو کہ خود بھی محکمہ صحت کا ملازم ہے نے بتاتے ہوئے کہا کہ ملازموں کے ساتھ ایسا سلوک ہے تو عام عوام کا اللہ حافظ ہے ستم ظریفی کی بات تو یہ ہے کہ شعبہ امراض قلب میں گذشتہ کئی دنوں سے اے سی جی مشین خراب ہے اور لوگ دل کے مریضوں کو زندہ لا کر میتیں واپس لے جا رہے ہیں لورالائی محکمہ ہیلتھ کے سربراہان کورونا کی مد میں آنے والی رقم کی خرد برد میں مصروف ہیں ڈاکٹر صاحبان ہسپتال میں سرکاری ڈیوٹیاں دینے کے بجائے اپنے پرائیویٹ کلینک چلانے میں مصروف عمل ہیں ڈاکٹر جس کو مسیحا کا خطاب دیا جاتا ہے وہ اس وقت موت کے سوداگر بنے ہوئے ہیں ہسپتال میں بھاری بھرکم تنخوا لینے والے ڈاکٹروں کو ٹیچنگ ہسپتال میں مریض چیک کرنے سے کورونا وائرس لگ جانے کے 100% چانس ہوتے ہیں اور یہی ڈاکٹر اپنے پرائیویٹ کلینکس میں بھاری فیسوں کے عیوض مریضوں کو ایسے چیک کرتے ہیں جیسا کہ کوروناوائرس کا وجود ہی نہیں اور یہی ڈاکٹرزمخصوص زیادہ پرسنٹیج دینے والی دو نمبر کمپنیوں کی ادویات لکھنے میں مصروف عمل ہیں اسی طرح ہر ڈاکٹر کی اپنی لیبارٹریاں بھی ہیں اورڈاکٹر صاحبان معمولی بیماری والوں کو بھی مختلف ٹیسٹ لکھ کر دیتے ہیں ڈاکٹر صاحبان عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں مصروف عمل ہیں دوسری جانب علاقہ کے منتخب نمائندئے،کمشنر،ڈپٹی کمشنر عوام سے بے خبر اپنی عیش وعشرت کی زندگی گذارنے میں مگن ہیں جاں بحق ہونے والی خاتون کے بیٹے عارف اور عوامی حلقوں نے چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ،چیف سیکرٹری بلوچستان،سیکرٹری صحت بلوچستان سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ لورالائی کے لوکل ڈاکٹروں کو لورالائی سے ٹرانسفر کیا جائے سرکاری ڈاکٹروں کے پرائیویٹ نجی کلینک چلانے پر مکمل پابندی لگائی جائے اور دو نمبر لیبارٹریوں اور دو نمبر ادویات کو بند کیا جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں