وفاقی بیوروکریسی کی عینک میں بلوچستان نظر نہیں آتا، سیاسی جماعتیں

کوئٹہ؛بلوچستان کے سیاسی جماعتوں نے کہا ہے کہ وفاقی بیوروکریسی کی عینک میں بلوچستان نظر نہیں آتا اگر بلوچستان کو اس کا جائز حق نہ دیا گیا تو بلوچستان عوامی پارٹی اور اتحادی وفاقی بجٹ میں ووٹ نہیں دیگی بلوچستان کے میگامنصوبوں کی وفاقی پی ایس ڈی پی میں شامل کرنے کے حوالے سے ہمیں اعتماد میں نہیں لیا گیا اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو ہم اپنے راہیں حکومت سے جدا کرسکتے ہیں بلوچستان کے ساتھ روز اول سے یہی ناروا سلوک روا رکھا جاتا رہا ہے وفاق بڑے بھائی کا کردار ادا کرتے ہوئے بلوچستان کی محرومیوں اور پسماندگی کو ملحوظ خاطر رکھ کر وفاقی پی ایس ڈی پی میں بلو چستان کے زیادہ سے زیادہ منصوبوں کو شامل کیا جائے ان خیالات کااظہار وزیر خزانہ بلوچستان میر ظہور بلیدی،بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات ورکن قومی اسمبلی آغا حسن ایڈووکیٹ، عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی وزیر زراعت انجینئر زمرک خان اچکزئی نیخبر رساں ادارے سے بات چیت کرتے ہوئے میر ظہور بلیدی نے کہا ہے کہ بلوچستان پاکستان کی ترقی کا ضامن ہے یہاں قیام امن کیلئے سیکورٹی فورسز اور عوام نے بیش بہا قربانیاں دی ہیں امن قائم ہونے کے بعد بلوچستان کے زخموں کا مداوا ترقی سے کیا جاسکتا ہے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال اور میں نے پلاننگ کمیشن کی پری بجٹ اجلاس میں شرکت کی بد قسمتی سے ہماری بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا جس پر ہم نے اجلاس سے واک آؤٹ کیا تھا انہوں نے کہا کہ وفاق پلاننگ کمیشن اور بیوروکریسی کی عینک میں بلوچستان نظر نہیں آتا لیکن ہم چھپ نہیں بیٹھیں گے وزیراعظم عمران خان نے بلوچستان سے پسماندگی کے خاتمے کیلئے وفاق سے بھر پور تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔ آغا حسن ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت سے تحفظات اور خدشات موجود ہیں اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو ہم اپنی راہیں حکومت سے جدا کرتے ہوئے اپوزیشن بینچوں پر بیٹھیں گے انہوں نے کہا کہ وفاق کی جانب سے بلوچستان کے میگا منصوبوں کی فیڈرل پی ایس ڈی پی میں شامل کرنے کے حوالے سے اعتماد میں نہیں لیا گیا جس کی وجہ سے ہمارے تحفظات اپنی جگہ پر برقرار ہیں اگر حکومت نے ماضی کی حکومتوں کی طرح ہمارے ساتھ کئے گئے وعدوں پر عملدرآمد نہ کیا تو ہم حکومت کا ساتھ دینے کے فیصلے پر نظر ثانی کرسکتے ہیں جب تک بلوچستان کے ساحل وسائل پر صوبے کے عوام کو دسترس نہیں دی جاتی اس وقت تک صوبے کو ترقی کی راہ پر گامزن نہیں کیا جاسکتا ہے اس حوالے سے مرکزی کمیٹی کا اجلاس جلد ہوگا جس میں اہم فیصلے کئے جائینگے۔انجینئر زمرک خان ا چکزئی نے کہا ہے کہ بلوچستان کے ساتھ روز اول سے ہی ناروا سلوک روا رکھا جاتا رہا ہے 1947جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو تمام اکائیوں کے حقوق کا خیال رکھا جانا چاہیے تھا لیکن بلوچستان کے حقوق کو نظر انداز کیا گیا بلوچستان جو کہ پاکستان کا رقبے کے اعتبار سے سب بڑا اور آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹا صوبہ ہے پنجاب سمیت دیگر صوبوں کا دوا م دینے اور ان کے نقصانات کو بلوچستان کے وسائل سے پورا کیا جاتا ہے اس لئے بلوچستان کے منصوبوں پر ہر سال فیدرل پی ایس ڈی پی میں کٹ لگا یا جاتا ہے جو کہ درست نہیں ہے اگر وفاق نے بلوچستان کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا رویہ ترک نہ کیا تو بلوچستان کے حالات ایک بار پھر خراب ہونگے جس کا بلوچستان اور یہاں پر بسنے والے لوگ متحمل نہیں ہوسکتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں