حکومت سے قبل پی ٹی آئی لاپتہ افراد کے معاملے میں ہمارے موقف سے متفق تھی اب علم نہیں کہ ان کی کیا مجبوری ہے، اختر مینگل

کوئٹہ;بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ ورکن قومی اسمبلی سرداراخترجان مینگل نے کہاہے کہ حکومت ملنے سے پہلے پی ٹی آئی مسنگ پرسنز کے معاملے میں ہمارے موقف سے متفق تھی، اب ہمیں علم نہیں کہ عمران خان کی کیا مجبوری ہے یا ان کے ہاتھ بندھے ہیں، مشرف دور میں بھی بلوچستان کے حوالے سے میڈیا پر اتنی قدغنیں نہیں تھیں جتنی جمہوری حکومتوں کے دور میں لگیں، سی پیک کی مد میں لی گئی امداد اور قرضوں کی رقوم کا پانچ فیصد بھی بلوچستان میں استعمال نہیں ہوا،وفاق کی طرف سے جتنی مذاکرات کیلئے کمیٹیاں بنی ہیں اتنا کام کیا ہوتا تو آج نوبت یہاں تک نہ پہنچتی،زیادتیاں اورناانصافیاں احساس محرومی کو جنم دیتی ہے جب تک احساس محرومی کو طاقت کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش کی جائے تو ہو نفرتوں کو بڑھاوا دیتاہے اگر حکمرانوں نے بلوچستان کو اپنے ساتھ لیکر چلنا ہے توان کو یہ زہر کاپیالہ پینا پڑے گا اگر جان چھڑانی ہے تو جس طرح چلتے آرہے ہیں آگے چل نہیں پائیں گے۔ان خیالات کااظہار انہوں نے غیرملکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔ سرداراخترجان مینگل نے کہاکہ اب تک تو کوئی وجوہات نہیں بتائے کہ رکاوٹ کیاہے،بہت سارے میٹنگز ہوئی ہے ایک تو یہاں کمیٹیاں بہت بنائی گئی ہے اور آج پھر سناہے کہ نئی کمیٹی بنائی گئی ہے جتنی کمیٹیاں بنی ہے اگر اتنے مسئلے حل ہوجاتے تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی،ہر بار جب ان سے بات چیت کی جاتی ہے تو کہاجاتاہے کہ مسائل حل ہوجائینگے مسائل حل ہوگئے آج تک یہ نہیں کہا،لاپتہ افراد کے حوالے سے 2012ء میں سپریم کورٹ آیا تھا تو وہ آئے اور پارٹی قیادت کے ہمراہ عمران خان نے اظہار یکجہتی کی اور کہاکہ کسی بھی ریاست میں اس طرح نہیں ہونا چاہیے جو قصور وار ہے تو اس کو قانون کے کٹہرے میں لایاجائے بلکہ مختلف ٹاک شوز میں بھی عمران خان نے کہاہے،حکومت ملنے سے پہلے پی ٹی آئی مسنگ پرسنز کے معاملے میں ہمارے موقف سے متفق تھی، اب ہمیں علم نہیں کہ عمران خان کی کیا مجبوری ہے یا ان کے ہاتھ بندھے ہیں یہ اپروول تو خود دے سکتاہے،ہم تو چاہتے ہیں کہ مسئلہ حل ہو اتحادکی ذمہ داری دونوں فریقین پر عائد ہوتی ہے ہم نے مشکل وقت میں جب ان کی حکومت بن نہیں پا رہی تھی انہیں ووٹ دیااب یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہماری مجبوری کوسامنے رکھتے ہوئے ان مسائل اگر ان پر100فیصد کام نہیں ہوسکتا دو سالوں تو کم سے کم 20فیصد تو کام ہونا چاہیے،انہوں نے کہاکہ 2018ء میں قومی اسمبلی میں ایک لسٹ 5128افراد کی لسٹ تھی،اب تک418بازیاب ہوئے ہیں،گزشتہ روز بھی میں ایک لسٹ پیش کی ہے،رابطہ کرنے والوں کی لسٹ ہم نے مہیا کی ہے ہمارے سے بھی غلطیاں ہوئی ہے، مزید بھی لسٹ مرتب کررہے ہیں اور اسپیکر کو پیش کی جائیگی،انہوں نے کہاکہ ہرتنظیم کی اپنی میکنزم ہے،پارٹی کا جہاں پر بھی یونٹ ہے وہاں لوگوں سے رابطے کئے ہیں جن کے لوگ لاپتہ ہوئے ہیں لیکن کچھ علاقے ہیں جہاں پر سیاسی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں انسرجنسی چل رہی ہے،انہوں نے کہاکہ جو معاہدہ کیا تھا اس میں یہ شق رکھی تھی کہ ان کی بازیابی کی جائیگی اور نیشنل ایکشن پروگرام کے تحت اگر کوئی شخص کسی غیرملکی سرگرمی میں ملوث ہو تو ان کے خلاف کارروائی کی جائیگی،یہ قانون ہمارے بنائے ہوئے ہیں یہاں حکومتیں بدلی ہیں ادارے تو وہی ہے ان کی پالیسی تو ایک ہونی چاہیے،اگر وہ خود اپنے قانون پرعملدرآمد نہیں کررہے تو پھر دوسروں سے کیوں اپنے قانون کی عزت ایکسپکٹ کررہے ہیں،حکومت اور اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ کسی بھی کرائم میں ملوث شخص سے 90دن تک تفتیش کی جاسکتی ہے لیکن 90کے بعد کم از کم ان کے ورثاء کو یہ تو پتہ ہونا چاہیے کہ وہ ملوث ہیں یا نہیں،انہوں نے کہاکہ بلوچستان کے حوالے سے 10سال قبل جنرل پرویز مشرف کے دور میں میڈیا پر اتنا قدغن نہیں تھاجتنا آج جمہوری حکومت کے دور میں میڈیا پر قدغن ہیں،بلوچستان والے روز اول سے کہتے رہے ہیں کہ جو بھی حکومت آئی ہے انہوں نے بلوچستان کو اسیٹلبشمنٹ کے رحم وکرم پر چھوڑا ہوا ہے لیکن اب دیکھنے میں آرہاہے کہ پورا پاکستان اسٹیبلشمنٹ کے رحم وکرم پر ہے زیادتیاں اورناانصافیاں احساس محرومی کو جنم دیتی ہے جب تک احساس محرومی کو طاقت کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش کی جائے تو ہو نفرتوں کو بڑھاوا دیتاہے،ٹرسٹ کیلئے کوئی گنجائش نہیں چھوڑا گیاہے،1962ء کے گیس کی بات کی جائے گیس یہاں کے کچھ علاقوں کے علاوہ دیگر تمام علاقے محروم ہیں،رائلٹی اور جی ڈی ایس کہاں جاتاہے پورے پاکستان کے چولہے بلوچستان کے گیس سے چلتے ہیں اور یہاں کے لوگ لکڑیوں سے گزارہ کررہے ہیں،سی پیک کے حوالے سے واضح طورپر کہاتھاکہ یہ بلوچستان کیلئے نہیں ہے آج ثابت ہورہاہے کہ سی پیک کے نام پر جو بیرون ملک سے امداد اور قرضے کی شکل میں لیاگیاہے اس کا 5فیصد بلوچستان میں استعمال نہیں ہواہے وہ تمام کاتمام بلوچستان سے باہر استعمال ہواہے اگر حکمرانوں نے بلوچستان کو اپنے ساتھ لیکر چلنا ہے توان کو یہ زہر کاپیالہ پینا پڑے گا اگر جان چھڑانی ہے تو جس طرح چلتے آرہے ہیں آگے چل نہیں پائیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں