بلوچستان، تعلیم کی صورتحال،پہلی جماعت میں داخلہ لینے والی 100طالبات میں سے صرف 7میٹرک تک تعلیم مکمل کر پاتی ہیں
کوئٹہ:بلوچستان میں اوسطا ًہر100 بچیاں جو پہلی جماعت میں داخلہ لیتی ہیں ان میں سے صرف 7بچیاں میٹرک پاس کرپاتی ہیں جبکہ باقی 93 فیصد بچیاں مختلف وجوہات کے بنا پر ڈراپ آوٹ ہوجاتی ہیں۔ اِس کے علاوہ بلوچستان میں 75فیصد سے زائد پرائمری سکول صرف 2کمرے یا اِس سے بھی کم پر مشتمل ہیں تفصیلات کے مطابق گزشتہ دنوں سول سوسائٹی کے کچھ اِداروں نے تعلیمی اصلاحات کے حوالے سے پاکستان میں سکول کے سطح پر تعلیمی صورت حال، تعلیم سے محروم بچیوں اور ان کے مسائل کے حوالے سے ایک جامع تجزیاتی مطالعہ شائع کیا جس کے مصنف ماہر ِ اِقتصادیات، فیڈرلزم اور پبلک فنانس امور کے ماہر عاصم بشیر خان ہیں، جو کہ نویں نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ(این ایف سی)کے لیے بلوچستان حکومت کے تکنیکی ماہر کی حیثیت سے بلوچستان میں بھی اپنی خدمات سر انجام دے چکے ہیں عاصم بشیر خان نے 1993 سے 2017 تک 25 سالوں میں داخلے کے اعداد و شمار کی چانچ پڑتال کرتے ہوئے بتایا کہ بلوچستان میں اوسطا ہر 100 بچیاں جو پہلی جماعت میں داخلہ لیتی ہیں ان میں صرف 7 بچیاں میٹرک پاس کرپاتی ہیں،بلوچستان میں بچوں کا ڈراپ آٹ ریٹ بہت زیادہ ہے،لیکن حیرت انگیزبات طور پر سندھ کا ڈراپ آٹ بھی بلوچستان کے برابر ہے جبکہ سندھ کا تعلیمی بجٹ بلوچستان کے تعلیمی بجٹ میں کہیں ذیادہ ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بلوچستان کے تقریبا 75 فیصد سکولوں میں بجلی نہیں ہے، دیہی بلوچستان کے 58 فیصد سیکنڈری سکول بجلی سے محروم ہیں، 40 فیصد یا اِس سے زائد پرائمری اور سیکنڈری سکولوں میں پینے کا پانی میسر نہیں ہے، 75 فیصد سے زائد پرائمری سکول 2 کمرے یا اِس سے کم پر مشتمل ہے تقریبا 7 فیصد سکولوں میں کوئی کمرہ نہیں ہے۔ بلوچستان میں 2220 پرائمری اور 487سیکنڈری سکولوں کی عمارتیں شدید مخدوش خالت میں ہیں اس وجہ سے یہ سکول اکثر بند رہتے ہیں۔ بلوچستان کے شہری علاقوں میں ہر 100 پرائمری سکولوں پر 34 سیکنڈری سکول ہیں جبکہ یہ صورت حال دیہی علاقوں میں ہر 100 پرائمری سکولوں پر صرف 18 سیکنڈری سکول ہیں بلوچستان میں پرائمری سکولوں کے مقابلے سیکنڈری سکولوں کی کم تعداد بھی سیکنڈری کی سطح پر بچیوں کی تعلیم میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اگر پرائمری میں داخل تمام بچے پانچ جماعتیں پاس کرلیں تو پاکستان اور بلوچستان دونوں کے تعلیمی نظام میں اتنی گنجائش ہی نہیں کہ ان بچیوں کو سیکنڈری تعلیم دی جاسکے۔ رپورٹ کے مطابق کوئٹہ کو چھوڑ کر بلوچستان کے تمام شہری اور دیہی علاقوں میں اوسطا ایک پرائمری سکول میں صرف ایک یا دو اساتذہ ہیں یعنی پانچ جماعتوں کیلئے صرف ایک یا دو اساتذہ ہے بلوچستان کے پرائمری سکولوں میں اساتذہ کی کمی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے گذشتہ 10 سالوں کے پرائمری اور سیکنڈری انرولمنٹ جائزہ میں بتایا گیا ہے کہ 2008 اور 2017 میں پرائمری اور سیکنڈری داخلوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے صرف دیہی علاقوں میں پرائمری انرولمنٹ میں کمی واقع ہوئی ہے، بلوچستان کے تعلیمی بجٹ میں ترقیاتی بجٹ کا حصہ فقط 10 فیصد کیقریب ہے،بلوچستان کے تعلیمی بجٹ میں ترقیاتی بجٹ کا حصہ بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔رپورٹ میں تعلیم سے محروم بچیوں کیلئے دس سالہ تعلیمی منصوبہ اور اخراجات کا تخمینہ بھی پیش کیا گیا ہے، عاصم بشیر خان کا یہ تحقیقی کام پاکستان میں تعلیمی اِصلاحات کے موضوع پر کئی اعتبار سے سب سے جامع اور اولین کاوش ہے رپورٹ میں دیہی اور شہری اعداد و شمار کی علیحدہ جانچ پڑتال کو یقینی بناگیا ہے، بیشتر حصوں میں گزشتہ 25 سالوں کے ڈیٹا اور اعداد و شمار کا جائزہ لیا گیا ہے، 2017 کی مردم شماری میں تعلیم سے محروم بچوں کا ڈیٹا نہ ہونے کی وجہ سے، ان بچوں کا الیکٹرانک ڈیٹا بیس بنانے کیلئے حکومت کو ایک مربوط پلان پیش کیا گیا ہے، خزانے میں تعلیم کے مزید رقم مختص کرنے کے حوالے سے جامع ٹیکس اِصلاحات کی تجاویز پیش کی گئی ہیں، یہ تحقیقی رپورٹ پاکستان میں تعلیمی اِصلاحات کے ضمن میں اپنی نوعیت کا سب سے منفرد اور اعلی کام ہے، اِس سے حکومت کو تعلیمی اصلاحات کا طویل المدت پروگرام بنانے میں بھر پور معاونت ملے گی۔