جعلی دوا سازوں کو سزائے موت دی جائے

اداریہ
اگر پاکستان کے عوام سے پوچھا جائے کہ جعلی دوائیں تیار کرنے والوں کے لئے کیا سزا ہونی چاہیے تو 100فیصدجواب دیں گے:”سزائے موت دی جائے!“۔ اگلے روز ادویات کی درآمدمیں پائی جانے والی شکایات سے متعلق ایک مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس دیئے کہ جعلی دوائیاں بنانے والوں کو سزائے موت دی جانی چاہیے۔عام آدمی کو ایسے عدالتی ریمارکس سننے کے بعد امید ہے کہ پارلیمنٹ بھی اس ضمن میں جعلی ادویات کی تیاری اور فروخت کی روک تھام کے لئے مناسب قانون سازی کرے گی۔اس لئے کہ جعلی دوا تیار کرنے کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ قابلِ علاج مریض کو جان بوجھ کر موت کے منہ میں دھکیلا جائے۔یہ قتل عمد ہے، بالارادہ قتل ہے۔مریض ڈاکٹر کے تجویز کردہ نسخے کے مطابق مہنگی دوا خرید کر استعمال کرتا ہے تاکہ صحت یاب ہوکر اپنی زندگی معمول کے مطابق گزار سکے۔یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ مارکیٹ میں اصل دوا دستیاب ہو۔جعلی دوا میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ مریض کو بیماری سے نجات دلا سکے۔جعلی دوا بنانے والا اور اس دوا کو فروخت کرنے والا دونوں زندہ انسانوں کے قتل میں برابر کے شریک ہیں۔دونوں جانتے ہیں کہ جو کچھ وہ بیچ رہے ہیں اسے استعمال کرنے والا مر جائے گا۔لہٰذا دونوں کو بیک وقت پھانسی دی جائے۔پاکستان کا ہر شہری جانتا ہے کہ آئین میں یہ لکھا ہوا ہے کہ ریاست کا دین اسلام ہوگا۔نیز یہ بھی لکھا ہے کہ اسلام سے مراد قرآن اور سنت ہوگا۔یعنی جو شخص قرآن کے واضح حکم کی خلاف ورزی کرے گا اسے قرآن میں مقرر کردہ سزا دی جائے گی۔سورۃ المائد کی آیت32میں لکھا ہے کہ جس نے کسی شخص کو بلا قانونی جواز قتل کیا اس کا یہ عمل(قتل) پوری انسانیت کے قتل کے برابر سمجھا جائے گا۔جعلی دوا کیاتیاری اور استعمال لوگوں کو قتل کرنے مترادف ہے۔
کتنے دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ عوام کے منتخب نمائندے اس قتل عام پر قانون سازی کرنے سے گریزاں ہیں۔انہیں احساس نہیں کہ مطلوبہ قانون سازی نہ کرکے وہ جعلی ادویات کے اس گھناؤنے کاروبار کی سرپرستی کر رہے ہیں اس قتل عام میں برابر کے شریک ہیں۔جعلی دوائیں تیار کرنا اور انہیں مارکیٹ کرنا بھی دہشت گردی ہے۔فرق صرف یہ کہ دہشت گرد قتل کرنے کے لئے بارود استعمال کرتا جبکہ کہ جعلی دوائی بیچنے والے قتل کا کام دوا کے نام پر کرتے ہیں۔ جعلی ادویات کے جرم کی سزا نہایت معمولی ہے، زیادہ سے زیادہ دو ہفتے کی سزا اور 10ہزار روپے جرمانہ ہوتا ہے۔پارلیمنٹ کے انتخابات پر قومی خزانے سے اربوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں۔اس کے بعد اراکین پارلیمنٹ کو اربوں روپے تنخواہ اور دیگر مراعات دی جاتی ہیں۔ان کے فرائض میں شامل ہے کہ عوام کی فلاح و بہبود کے لئے قانون سازی کریں۔لیکن وہ اس بنیادی فرض کی ادائیگی سے دانستہ آنکھیں چراتے ہیں۔مناسب قانون سازی نہ ہونے کے باعث ملک میں جرائم کو فروغ ملتا ہے اور مجرم مافیاز بن کر عوام کی زندگی اجیرن کر دیتے ہیں۔ادارے کرپشن کا شکار ہوکر مجرموں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوجاتے ہیں اور مجرموں کے ساتھ مل کر وہی کچھ کرتے ہیں جو مجرم کر رہے ہوتے ہیں۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ تمام اداروں میں مجرموں کے ہمدرد اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہیں۔سول ایوی ایشن اتھارٹی جیسا انتہائی حساس ادارہ عدالت میں اپنے جرائم پر شرمندگی کا اظہار کرنے کی بجائے اپنے دفاع میں یہ دلیل پیش کر رہا ہے کہ پائلٹس کو جعلی لائسنس جاری کرتے وقت ان کا کمپیوٹر سسٹم غیر فعال ہوگیا تھا۔ عین یہی کچھ انتخابی نتائج کے اعلان کے دوران بھی ہوا تھا۔اپوزیشن کمپیو ٹر کی اس خرابی کو ٹیکنکل معاملہ نہیں مانتی یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کو ان کی موجودگی میں سلیکٹڈ وزیراعظم کہا جاتا ہے اور وہ خاموشی سے اس طعنے کو برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ گویا آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے جدھر نگاہ اٹھائی جائے وہاں کرپشن کے انبار نظر آتے ہیں۔محکمہ صحت کا احوال عداتی ریمارکس میں جھلک رہی ہے۔
اسی روز عدالت میں پی آئی اے کی شرمناک کارکردگی کے حوالے سے بھی مقدمہ زیر سماعت تھا۔ایم ڈی، پی آئی اے نے عدالت کو بتایا کہ جعلی ڈگری والے750ملازمین کو نکالا گیا ہے۔جعلی ڈگری والے 15پائلٹس کو معطل کیا گیا ہے اس لئے کہ ہم صرف معطل کر سکتے ہیں،برطرفی کا اختیار نہیں۔عدالت نے ریمارکس دیئے کہ جعلی لائسنس والے واقعہ پر ملکی وقار کو دھچکا لگا ہے،بدنامی میں پاکستان زمین کی تہہ تک پہنچ گیا ہے۔پاکستان کو دنیا کا کرپٹ ترین ملک کہا جارہا ہے۔عوام کی زندگیاں داؤ پر لگا دی گئی ہیں،کسی افسر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی، بھیانک جرم کرنے والے اور کرانے والے آرام سے تنخواہیں لے رہے ہیں۔عدالت مجرموں کی سرکوبی کے لئے صرف وہی کچھ کر سکتی ہے جو قانون میں درج ہے۔اگر جعلی ادویات تیار کرنے یا بیچنے والے کو قانون میں دو ہفتے کی سزا اور 10ہزار روپے جرمانہ ہے تو جج اپنی شدید خواہش کے باوجود سزائے موت نہیں دے سکتا۔یہ بات اراکین پارلیمنٹ کو سوچنا چاہیے کہ آج جعلی دواؤں کی تیاری اور مارکیٹنگ روکنے اور اس کے خاتمہ کے لئے سزائے موت کا قانون لانا کتنا ضروری ہے؟پائلٹس کو جعلی لائسنس جاری کرنے والوں کو سینکڑوں مسافروں کا قاتل قرار دینے اور سزائے موت دینا وقت کی ضرورت ہے۔ کاش پاکستان کی پارلیمنٹ قتل ِانسانیت کی روک تھام کے لئے کچھ کرے!

اپنا تبصرہ بھیجیں